Wednesday, January 4, 2017
Tuesday, January 3, 2017
برمودا ٹرائ اینگل کا مسئلہ حل ہو گیا بلکل ایک نئ تحقیق
برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت!
بحر اوقیانوس (اٹلانٹک اوشن) کے ایک مثلث کی طرح کے علاقے کو برمودا ٹرائی اینگل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا میں، دوسرا پورٹوریکو میں اور تیسرا کونا میلبورن، فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔
اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں کہ جن کے باعث اسکو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے۔ ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی اور مافوق الفطرت (paranormal) واقعات شامل ہیں۔
ان ماوراء طبیعی داستانوں (یا واقعات) کی تفسیر کیلیۓ جو کوششیں کی گئی ہیں ان میں بھی اکثر غیر معمولی اور مسلمہ سائنسی اصولوں سے ہٹ کر ایسی ہیں کہ جن کیلیۓ کم از کم موجودہ سائنس میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔
ان تفاسیر میں طبیعیات کے قوانین کا معلق و غیر موثر ہوجانا اور ان واقعات میں بیرون ارضی حیات (extraterrestrial life) کا ملوث ہونا جیسے خیالات اور تفکرات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان گمشدگی کے واقعات میں سے خاصے یا تقریباً تمام ہی ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایک معمہ کی خصوصیت وابستہ ہو چکی ہے اور ان کو انسانی عمل دخل سے بالا پیش آنے والے حوادث کی حیثیت دی جاتی ہے۔
بہت سی دستاویزات ایسی ہیں کہ جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کو تاریخی اعتبار سے ملاحوں کیلئے ایک اسطورہ یا افسانوی مقام کی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ مختلف مصنفین اور ناول نگاروں نے بھی اس مقام کے بیان کو الفاظ کے بامہارت انتخاب اور انداز و بیان کی آرائش و زیبائش سے مزید پراسرار بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
عوامی حلقوں میں مشہور قصے اپنی جگہ لیکن برمودا کے بارے میں بعض مفکرین کا خیال یہ ہے کہ اصل میں یہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی فوجی اڈے اور کچھ امریکی فوجی اڈے تھے۔ لوگوں کو ان سے دور رکھنے کے لیے برمودا کی مثلث کے افسانے مشہور کیے گئے جن کو قصص یا فکشن (بطور خاص سائنسی قصص) لکھنے والوں نے اپنے ناولوں میں استعمال کیا۔ اب چونکہ اڈوں والا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا اس لیے عرصے سے سمندر کے اس حصے میں ہونے والے پراسرار واقعات بھی نہیں ہوئے۔ مواصلات کے اس جدید دور میں اب بھی کوئی ایسا علاقہ نہیں ملا جہاں قطب نما کی سوئی کام نہ کرتی ہو یا اس طرح کے واقعات ہوتے ہوں جو برمودا کی مثلث کے سلسلے میں بیان کیے جاتے ہیں۔
برمودہ ٹرائی اینگل، کا معمہ سایئنسی بنیادوں پہ حل ھو چکا ھے، بلکہ کئی معمے ایسے تھے ہی نہیں، مشہور زیادہ ھو گئے تھے۔ وہ ھوائی جہاز کہ جو پانی میں گر کو تباہ ھوئے تھے، انکو، انہی پانیوں کی گہرائیوں سے جا کر نکال لیا گیا ھے کہ جو خود اس بات کو رد کرتا ھے کہ برمودہ تکون کے پانیوں میں نہیں جایا جا سکتا۔
درآصل برمودہ مثلث کے بارے میں تب پتہ چلا کہ جب جنگ عظیم کو دوران ٹرینینگ پہ گیے ھوئی جہازوں کا ایک پورا فلیٹ غائب ھو گیا۔ اُس فلیٹ کے لیڈر کے جہاز کی جایئروسکوپ خراب ھو گئی اور وہ ھوائی اور بحری جہاز کی دنیا کا ایک سب سے خوفناک مسئلے کا شکار ھوا کہ جسے
پائلٹ ڈس اورینٹیشن
pilot Disorientation کہتے ہیں۔ اور اس دوران پائلٹ کا اپنے کنٹرول ٹاور سے مکمل رابطہ رھا، کہ جو اُس فلیٹ کو نیویگیٹ کرنے کی کوشش کرتے رھے۔ اور کنٹرول ٹاور میں بھی موجود افراد کو یہ اندازہ ھو رھا تھا کہ اگر یہ مسئلہ درپیش رھا تو فیول ختم ھونے کے بعد سب جہاز گر جایئں گے۔ پهر ھوا بھی یہی کنٹرول ٹاور اور جہازوں کے مابین ھونے والی آخری وقت تک کی گفتگو بھی موجود ھے۔ لہذا ایسا نہیں ھوا تھا، کہ یک دم چلتے جہاز کو کچھ ھوا تھا۔
دراصل وہ خطہ ایسا تھا کہ جب نیویگیشن کا مسئلہ آیا تو، جہاز میں بیٹھے ھوئے لوگ یہ سمجھ رھے تھے کہ وہ غلطی سے بحر الکاہل میں چلے گئے ہیں، جبکہ وہ بحر اوقیانوس میں ہی تین جزیروں کے بیچ میں گھومتے رھے۔ اور اسطرح کے مسائل کی وجہ کچھ واقعات پیش آئے۔ تو ایسا مشہور ھوا۔
جہاں تک بحری جہازوں کے ڈوبنے کا تعلق ھے تو وہ معمہ اسطرح کھلا کہ جب ایک آئل رِگ سمندر کی گہرائی میں موجود میتھین گیس کی لیکیج کی وجہ سے ڈوب گئی۔ اور اس وقت یہ اندازہ ھوا کہ کہ سمندر میں اگر گیس کا اخراج ھو جائے، تو وہ گیس اپنے اخراج کی جگہ سے لیکر سمندر سے باہر نکلنے تک پانی کو کافی حد تک اپنی جگہ سے ہٹا دیتی ھے، کہ جسکی وجہ سے اس جگہ پہ موجود پانی اور گیس کا ایک ایسا میکسچر بنتا ھے کہ وھاں بایئوسنی خطرناک حد تک کم ھو جاتی ھے کہ جس میں بحری جہاز تو کیا ایک آئل رگ بھی ڈوب جائے۔ اور یہی اس خطے میں ھوا تھا۔
مگر جنگ عظیم کے زمانے میں جنگوں کے دوراں ھونے والے ایسے واقعات کہ جنکی گہرائی تک عوام کی رسائی نہ تھی، تو انکو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مثلا نیواڈا کے علاقے میں فضائی اور ھوائی تجربات کی وجہ سے لوگوں نے یو۔ایف۔او کی تھیوری تشکیل دی اور یہ کہا کہ کوئی غیر زمینی مخلوق زمین پر آتی ھے۔ مگر جب کئی عرصے بعد امریکہ کی ایئر فورس نے خود اس حقیقت سے پردہ اٹھایا۔ اسی طرح جنگ عظیم کے دوران کئی واقعات منظر عام پہ نہیں آسکے اور مختلف ازہان نے اپنی اپنی تھیوریاں بنائی۔
مافوق الفطرت صورتحال پہ یقین کرنے والوں نے اپنی تهیوری بنائی، اور سائنسی اذہان نے کچھ مستند سامنے آنے تک اپنے وثوق کو موخر کیا۔
مگر یہ معمہ اب حل شدہ ھے، کیونکہ انہی سمندروں پہ جہاز چلتے ہیں، انہی فضاؤں میں جہاز اڑتے ہیں، اور انہی پانیوں کی گہرائیوں میں لوگ جاتے ہیں، وہی جہاز ڈھونڈھ کر لاتے ہیں، کہ جنہیں کسی مافوق الفطرت واقعہ کے کھاتے میں ڈال کر ڈوبنے کا بتایا جاتا ھے کہ وہ ایسے جگہ ڈوبے کہ جہاں کوئی نہیں جا سکتا..!!
برمودا ٹرائی اینگل کی شہرت کا باعث وہ کہانیاں ہیں جو اس کے ساتھ وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔ ان کہانیوں کے مطابق کئی بحری جہاز اور کئی ہوائی جہاز اس علاقے سے گزرتے ہوئے لاپتہ ہوگئے اور ان کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔ انہی حادثات کے باعث اس علاقے کو شیطان کی مثلث (Devil's Triangle) بھی کہتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ تندوتیز طوفانوں کا علاقہ ہے۔ لیکن ماس میڈیا میں اسے ایک ماورائی یا پیرانارمل جگہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے جہاں طبیعات کے تسلیم شدہ قوانین یا تو غلط ثابت ہوجاتے ہیں، بدل جاتے ہیں یا ان کے ساتھ بیک وقت دونوں صورتیں پیش آجاتی ہیں۔ اسی لئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس علاقے میں کئی ہوائی جہاز اور کئی بحری جہاز انتہائی غیرعمومی حالات میں غائب ہوگئے۔ امریکی کوسٹ گارڈ اور دوسرے لوگ اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ حادثات کے بارے میں جمع کئے جانے والے اعدادوشمار سے کہیں بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس علاقے میں پیش آنے والے حادثات دنیا کی دیگر مصروف ترین گزرگاہوں سے زیادہ رہے ہوں اور باریک بینی سے جائزہ لینے پر اس علاقے کے بارے میں پھیلائی جانے والی کسی بھی کہانی میں کوئی غیرمعمولی عوامل دکھائی نہیں دئیے۔ اس علاقے میں جہازوں کے غائب ہونے کی بات پہلے پہل 1950ء میں کی گئی۔ یہ کہانی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ذریعے سامنے آئی اور اس کے لکھنے والے کا نام ای وی ڈبلیو جونز تھا۔ جونز نے جہاں اپنے آرٹیکل میں ان حادثات کو ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور چھوٹی کشتیوں کی ’’پراسرار گمشدگی‘‘ سے تعبیر کیا وہیں اس علاقے کو ’’ڈیولز ٹرائی اینگل‘‘ کا نام بھی دیا۔ دوسری بار اس کا ذکر 1952 میں ’’فیٹ میگزین‘‘ کے ایک آرٹیکل میں ہوا جسے جارج ایکس سینڈ نے تحریر کیا اور اس میں کئی پراسرار بحری گمشدگیوں کا ذکر کیا گیا۔ ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کی اصطلاح 1964ء میں ونسینٹ گیڈیز کے Argosy فیچر کے ذریعے مقبول ہوئی۔ جو مقبولیت اس علاقے کو آج حاصل ہے وہ چارلس برلٹیز کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کے نام سے چارلس برلیٹز کی کتاب 1974ء میں شائع ہوئی اور بعد میں اس پر فلم بھی بنائی گئی۔کتاب میں ان ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے بارے میں طویل اور پراسرار کہانیاں لکھی گئی ہیں جو اس سمندری علاقے میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس میں خصوصی طور پر امریکی بحریہ کے پانچ تارپیڈو بمبار طیاروں کا ذکر کیا گیا ہے جو دسمبر 1945ء میں اس علاقے میں لاپتہ ہوئے۔ اسے فلائٹ 19 کا حادثہ کہاجاتا ہے۔ یہ کتاب ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوئی اور اس میں گمشدگیوں کی کئی وجوہات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً حادثوں کی ایک وجہ اس علاقے میں بھاری آمدورفت بھی ہو سکتی ہے، سمندری طوفان بھی ان حادثوں کا باعث ہو سکتے ہیں۔ ان دو سمجھ میں آنے والی وجوہات کے علاوہ کئی ایسے اسباب کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ماورائے عقل ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ ان گمشدگیوں کا باعث ٹمپرل ہولز (temporal holes) بھی ہو سکتے ہیں۔ سمندر میں غرق ہوجانے والی افسانوی سلطنت ’’اٹلانٹس‘‘ جس کا ذکر سب سے پہلے افلاطون نے کیا تھا، بھی ان حادثوں کا سبب ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے سیارے کی ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی بھی ان حادثوں کی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سپر نیچرل وجوہات کے ذکر اس کتاب کے اندر ملتا ہے۔ فلائٹ 19 کے حادثے کے وقت ہی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے ریفرنس لائبریرین لارنس کوشے نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں طلباء کی بے پناہ دلچسپی اور سوالات سے تحریک پاکر اصلی رپورٹوں کی چھان بین کا تھکا دینے والا کام شروع کردیا اور ان رپورٹوں سے حاصل ہونے والے نتائج 1975ء میں The Bermuda Triangle Mystery: Solved کے نام سے ایک کتاب میں شائع ہوئے۔ کوشے نے بڑی جابک دستی سے برلیٹز کی کہانیوں اور عینی شاہدین کے بیانات میں پائے جانے والے نقائص کو سامنے لاکر ان کا پردہ فاش کردیا۔ آج تک کی جانے والی کھوج بین سے کسی غیرعمومی مظہر کے ان حادثات میں ملوث ہونے کی کوئی سائنسی شہادت نہیں مل سکی..
بحر اوقیانوس (اٹلانٹک اوشن) کے ایک مثلث کی طرح کے علاقے کو برمودا ٹرائی اینگل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا میں، دوسرا پورٹوریکو میں اور تیسرا کونا میلبورن، فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔
اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں کہ جن کے باعث اسکو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے۔ ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی اور مافوق الفطرت (paranormal) واقعات شامل ہیں۔
ان ماوراء طبیعی داستانوں (یا واقعات) کی تفسیر کیلیۓ جو کوششیں کی گئی ہیں ان میں بھی اکثر غیر معمولی اور مسلمہ سائنسی اصولوں سے ہٹ کر ایسی ہیں کہ جن کیلیۓ کم از کم موجودہ سائنس میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔
ان تفاسیر میں طبیعیات کے قوانین کا معلق و غیر موثر ہوجانا اور ان واقعات میں بیرون ارضی حیات (extraterrestrial life) کا ملوث ہونا جیسے خیالات اور تفکرات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان گمشدگی کے واقعات میں سے خاصے یا تقریباً تمام ہی ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایک معمہ کی خصوصیت وابستہ ہو چکی ہے اور ان کو انسانی عمل دخل سے بالا پیش آنے والے حوادث کی حیثیت دی جاتی ہے۔
بہت سی دستاویزات ایسی ہیں کہ جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کو تاریخی اعتبار سے ملاحوں کیلئے ایک اسطورہ یا افسانوی مقام کی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ مختلف مصنفین اور ناول نگاروں نے بھی اس مقام کے بیان کو الفاظ کے بامہارت انتخاب اور انداز و بیان کی آرائش و زیبائش سے مزید پراسرار بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
عوامی حلقوں میں مشہور قصے اپنی جگہ لیکن برمودا کے بارے میں بعض مفکرین کا خیال یہ ہے کہ اصل میں یہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی فوجی اڈے اور کچھ امریکی فوجی اڈے تھے۔ لوگوں کو ان سے دور رکھنے کے لیے برمودا کی مثلث کے افسانے مشہور کیے گئے جن کو قصص یا فکشن (بطور خاص سائنسی قصص) لکھنے والوں نے اپنے ناولوں میں استعمال کیا۔ اب چونکہ اڈوں والا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا اس لیے عرصے سے سمندر کے اس حصے میں ہونے والے پراسرار واقعات بھی نہیں ہوئے۔ مواصلات کے اس جدید دور میں اب بھی کوئی ایسا علاقہ نہیں ملا جہاں قطب نما کی سوئی کام نہ کرتی ہو یا اس طرح کے واقعات ہوتے ہوں جو برمودا کی مثلث کے سلسلے میں بیان کیے جاتے ہیں۔
برمودہ ٹرائی اینگل، کا معمہ سایئنسی بنیادوں پہ حل ھو چکا ھے، بلکہ کئی معمے ایسے تھے ہی نہیں، مشہور زیادہ ھو گئے تھے۔ وہ ھوائی جہاز کہ جو پانی میں گر کو تباہ ھوئے تھے، انکو، انہی پانیوں کی گہرائیوں سے جا کر نکال لیا گیا ھے کہ جو خود اس بات کو رد کرتا ھے کہ برمودہ تکون کے پانیوں میں نہیں جایا جا سکتا۔
درآصل برمودہ مثلث کے بارے میں تب پتہ چلا کہ جب جنگ عظیم کو دوران ٹرینینگ پہ گیے ھوئی جہازوں کا ایک پورا فلیٹ غائب ھو گیا۔ اُس فلیٹ کے لیڈر کے جہاز کی جایئروسکوپ خراب ھو گئی اور وہ ھوائی اور بحری جہاز کی دنیا کا ایک سب سے خوفناک مسئلے کا شکار ھوا کہ جسے
پائلٹ ڈس اورینٹیشن
pilot Disorientation کہتے ہیں۔ اور اس دوران پائلٹ کا اپنے کنٹرول ٹاور سے مکمل رابطہ رھا، کہ جو اُس فلیٹ کو نیویگیٹ کرنے کی کوشش کرتے رھے۔ اور کنٹرول ٹاور میں بھی موجود افراد کو یہ اندازہ ھو رھا تھا کہ اگر یہ مسئلہ درپیش رھا تو فیول ختم ھونے کے بعد سب جہاز گر جایئں گے۔ پهر ھوا بھی یہی کنٹرول ٹاور اور جہازوں کے مابین ھونے والی آخری وقت تک کی گفتگو بھی موجود ھے۔ لہذا ایسا نہیں ھوا تھا، کہ یک دم چلتے جہاز کو کچھ ھوا تھا۔
دراصل وہ خطہ ایسا تھا کہ جب نیویگیشن کا مسئلہ آیا تو، جہاز میں بیٹھے ھوئے لوگ یہ سمجھ رھے تھے کہ وہ غلطی سے بحر الکاہل میں چلے گئے ہیں، جبکہ وہ بحر اوقیانوس میں ہی تین جزیروں کے بیچ میں گھومتے رھے۔ اور اسطرح کے مسائل کی وجہ کچھ واقعات پیش آئے۔ تو ایسا مشہور ھوا۔
جہاں تک بحری جہازوں کے ڈوبنے کا تعلق ھے تو وہ معمہ اسطرح کھلا کہ جب ایک آئل رِگ سمندر کی گہرائی میں موجود میتھین گیس کی لیکیج کی وجہ سے ڈوب گئی۔ اور اس وقت یہ اندازہ ھوا کہ کہ سمندر میں اگر گیس کا اخراج ھو جائے، تو وہ گیس اپنے اخراج کی جگہ سے لیکر سمندر سے باہر نکلنے تک پانی کو کافی حد تک اپنی جگہ سے ہٹا دیتی ھے، کہ جسکی وجہ سے اس جگہ پہ موجود پانی اور گیس کا ایک ایسا میکسچر بنتا ھے کہ وھاں بایئوسنی خطرناک حد تک کم ھو جاتی ھے کہ جس میں بحری جہاز تو کیا ایک آئل رگ بھی ڈوب جائے۔ اور یہی اس خطے میں ھوا تھا۔
مگر جنگ عظیم کے زمانے میں جنگوں کے دوراں ھونے والے ایسے واقعات کہ جنکی گہرائی تک عوام کی رسائی نہ تھی، تو انکو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مثلا نیواڈا کے علاقے میں فضائی اور ھوائی تجربات کی وجہ سے لوگوں نے یو۔ایف۔او کی تھیوری تشکیل دی اور یہ کہا کہ کوئی غیر زمینی مخلوق زمین پر آتی ھے۔ مگر جب کئی عرصے بعد امریکہ کی ایئر فورس نے خود اس حقیقت سے پردہ اٹھایا۔ اسی طرح جنگ عظیم کے دوران کئی واقعات منظر عام پہ نہیں آسکے اور مختلف ازہان نے اپنی اپنی تھیوریاں بنائی۔
مافوق الفطرت صورتحال پہ یقین کرنے والوں نے اپنی تهیوری بنائی، اور سائنسی اذہان نے کچھ مستند سامنے آنے تک اپنے وثوق کو موخر کیا۔
مگر یہ معمہ اب حل شدہ ھے، کیونکہ انہی سمندروں پہ جہاز چلتے ہیں، انہی فضاؤں میں جہاز اڑتے ہیں، اور انہی پانیوں کی گہرائیوں میں لوگ جاتے ہیں، وہی جہاز ڈھونڈھ کر لاتے ہیں، کہ جنہیں کسی مافوق الفطرت واقعہ کے کھاتے میں ڈال کر ڈوبنے کا بتایا جاتا ھے کہ وہ ایسے جگہ ڈوبے کہ جہاں کوئی نہیں جا سکتا..!!
برمودا ٹرائی اینگل کی شہرت کا باعث وہ کہانیاں ہیں جو اس کے ساتھ وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔ ان کہانیوں کے مطابق کئی بحری جہاز اور کئی ہوائی جہاز اس علاقے سے گزرتے ہوئے لاپتہ ہوگئے اور ان کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔ انہی حادثات کے باعث اس علاقے کو شیطان کی مثلث (Devil's Triangle) بھی کہتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ تندوتیز طوفانوں کا علاقہ ہے۔ لیکن ماس میڈیا میں اسے ایک ماورائی یا پیرانارمل جگہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے جہاں طبیعات کے تسلیم شدہ قوانین یا تو غلط ثابت ہوجاتے ہیں، بدل جاتے ہیں یا ان کے ساتھ بیک وقت دونوں صورتیں پیش آجاتی ہیں۔ اسی لئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس علاقے میں کئی ہوائی جہاز اور کئی بحری جہاز انتہائی غیرعمومی حالات میں غائب ہوگئے۔ امریکی کوسٹ گارڈ اور دوسرے لوگ اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ حادثات کے بارے میں جمع کئے جانے والے اعدادوشمار سے کہیں بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس علاقے میں پیش آنے والے حادثات دنیا کی دیگر مصروف ترین گزرگاہوں سے زیادہ رہے ہوں اور باریک بینی سے جائزہ لینے پر اس علاقے کے بارے میں پھیلائی جانے والی کسی بھی کہانی میں کوئی غیرمعمولی عوامل دکھائی نہیں دئیے۔ اس علاقے میں جہازوں کے غائب ہونے کی بات پہلے پہل 1950ء میں کی گئی۔ یہ کہانی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ذریعے سامنے آئی اور اس کے لکھنے والے کا نام ای وی ڈبلیو جونز تھا۔ جونز نے جہاں اپنے آرٹیکل میں ان حادثات کو ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور چھوٹی کشتیوں کی ’’پراسرار گمشدگی‘‘ سے تعبیر کیا وہیں اس علاقے کو ’’ڈیولز ٹرائی اینگل‘‘ کا نام بھی دیا۔ دوسری بار اس کا ذکر 1952 میں ’’فیٹ میگزین‘‘ کے ایک آرٹیکل میں ہوا جسے جارج ایکس سینڈ نے تحریر کیا اور اس میں کئی پراسرار بحری گمشدگیوں کا ذکر کیا گیا۔ ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کی اصطلاح 1964ء میں ونسینٹ گیڈیز کے Argosy فیچر کے ذریعے مقبول ہوئی۔ جو مقبولیت اس علاقے کو آج حاصل ہے وہ چارلس برلٹیز کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کے نام سے چارلس برلیٹز کی کتاب 1974ء میں شائع ہوئی اور بعد میں اس پر فلم بھی بنائی گئی۔کتاب میں ان ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے بارے میں طویل اور پراسرار کہانیاں لکھی گئی ہیں جو اس سمندری علاقے میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس میں خصوصی طور پر امریکی بحریہ کے پانچ تارپیڈو بمبار طیاروں کا ذکر کیا گیا ہے جو دسمبر 1945ء میں اس علاقے میں لاپتہ ہوئے۔ اسے فلائٹ 19 کا حادثہ کہاجاتا ہے۔ یہ کتاب ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوئی اور اس میں گمشدگیوں کی کئی وجوہات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً حادثوں کی ایک وجہ اس علاقے میں بھاری آمدورفت بھی ہو سکتی ہے، سمندری طوفان بھی ان حادثوں کا باعث ہو سکتے ہیں۔ ان دو سمجھ میں آنے والی وجوہات کے علاوہ کئی ایسے اسباب کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ماورائے عقل ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ ان گمشدگیوں کا باعث ٹمپرل ہولز (temporal holes) بھی ہو سکتے ہیں۔ سمندر میں غرق ہوجانے والی افسانوی سلطنت ’’اٹلانٹس‘‘ جس کا ذکر سب سے پہلے افلاطون نے کیا تھا، بھی ان حادثوں کا سبب ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے سیارے کی ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی بھی ان حادثوں کی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سپر نیچرل وجوہات کے ذکر اس کتاب کے اندر ملتا ہے۔ فلائٹ 19 کے حادثے کے وقت ہی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے ریفرنس لائبریرین لارنس کوشے نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں طلباء کی بے پناہ دلچسپی اور سوالات سے تحریک پاکر اصلی رپورٹوں کی چھان بین کا تھکا دینے والا کام شروع کردیا اور ان رپورٹوں سے حاصل ہونے والے نتائج 1975ء میں The Bermuda Triangle Mystery: Solved کے نام سے ایک کتاب میں شائع ہوئے۔ کوشے نے بڑی جابک دستی سے برلیٹز کی کہانیوں اور عینی شاہدین کے بیانات میں پائے جانے والے نقائص کو سامنے لاکر ان کا پردہ فاش کردیا۔ آج تک کی جانے والی کھوج بین سے کسی غیرعمومی مظہر کے ان حادثات میں ملوث ہونے کی کوئی سائنسی شہادت نہیں مل سکی..
Sunday, January 1, 2017
اینڈو اسکوپی کیا ہے (درون بینی) طریقہ علاج
عمل دروں بینی (اینڈو اسکوپی) ایک ایسی چیر پھاڑ ہوتی ہے جس میں انسانی جسم کے اندرون کے افعال کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ روایتی طور پر ایک دَرون بین (اینڈواسکوپ - جسم کے اندرون کا معائنہ کرنے کا آلہ) نامی آلہ استعمال کیا جاتا ہے تاہم حال ہی میں ان کی جگہ ایسے کیپسول کے اندر لگے ہوئے ننھے کیمروں نے لے لی ہے جس کو ہم نگل سکتے ہیں۔ آنتوں، غذائی نالی، اور معدے کا معائنہ کرنے میں طاق یہ ان جگہوں کی جانچ بھی کر سکتے ہیں جہاں درون بین کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ خاص طور پر یہ چھوٹی آنت کے تین اہم حصّوں کا مطالعہ کرتا ہے : اثنا عشری آنت (duodenum- پیٹ کے بالکُل نیچے کی چھوٹی آنت کا اگلا حِصَّہ جو بارہ اِنچ کے قریب لمبا ہوتا ہے) ، مَعائے صائم (jejunum- چھوٹی آنت کا بالائی حصہ) اور لفائفہ(ileum- چھوٹی آنت کا نِچلا حِصّہ)۔
ایک پونڈ کے سکے کے حجم جتنا یہ کیپسول تصاویر کو باہر موجود ڈیٹا ریکارڈرز تک ارسال کرتا ہے۔ یہ قدرتی طور پر انہضام کی نالی سے گزرتا ہے اور اس طرح بنایا گیا ہے کہ شدید اسہال، چھوٹی آنت کی سوزش، پیٹ کے درد اور کم انجذاب جیسی بیماریوں کے سبب کی تشخیص کرنے میں مدد دے۔ تصاویر حاصل کرنے کے لئے میکانزم ایل ای ڈی کے ذریعہ معدے کی نالی کی دیوار پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے بعد یہ تصاویر پھر ریڈیائی لہروں کی صورت میں قریبی وصول کنندہ یا مانیٹر پر تجزیے کے لئے ارسال کر دیا جاتیں ہیں۔
اگر کوئی اس کی خامی ہے تو وہ یہ کہ فی الوقت کیمرے کو کسی بھی چیز کا قریبی جائزہ لینے کے لئے روکا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ قدرتی حرکت دوری(peristalsis- نظام کے سکڑنے یا پھیلنے کی خود کار حرکت) کے ذریعہ سفر کرتا ہے۔
اب تک دنیا بھر میں 400,000 کے قریب تجزیات اس کے ذریعہ ادا کئے گئے ہیں اور اس کی جسم میں رہنے کی شرح صرف 0.75 فیصد رہی ہے، لہٰذا یہ امکان کہ یہ محفوظ طریقے سے نہیں گزر پائے گا بہت ہی کم ہے۔ لگ بھگ آٹھ گھنٹے کے اندر کیپسول ناقابل یقین 50,000 کے قریب تصاویر لے سکتا ہے۔
اس کی قیمت لگ بھگ 600 برطانوی پونڈ (1,000 $) ہے، تاہم اس کی نظام انہضام کے حصّوں کی بے مثال مفصل چھان بین کی قابلیت - داخل انداز بیرونی جراحی - کے مقابلے میں انمول ہے۔
کھانے والا کیپسول
کیپسول کیمرے سے کیا جانے والا درون بین بے آزار اور نسبتاً تیز رفتار عمل ہے۔ طریقہ کار کو مؤثر طریقے سے کام کی اجازت دینے کے لئے مریض کے لئے چند اہم اقدامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جانچ سے قبل مریض کو 12 گھنٹے تک نہ تو کچھ کھانا ہے اور نہ ہی کچھ پینا ہے۔ کچھ صورتوں میں عمل کاری سے پہلے مریض کو رفع حاجت کے ذریعے اپنے معدے کو صاف کرنا بھی ہوتا ہے۔ کیپسول کھانے کے بعد آپ اس وقت تک چل پھر سکتے ہیں جب تک کوئی اچانک سے حرکت نہ کریں۔ کیپسول کو استعمال کرنے والی اکثریت کو کسی بھی قسم کی تکلیف یا بے آرامی محسوس نہیں ہوئی۔ آپ کیپسول کھانے کے دو گھنٹے بعد صاف پانی پی سکتے ہیں جبکہ چار گھنٹے بعد کھانا بھی کھا سکتے ہیں۔
کان سے سننے والے اور آنکھ سے سننے والے (اواز)
پس منظر
آواز ٹھوس، مائعات اور گیسوں میں ذرّات میں سے گزرنے والے ارتعاش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ارتعاش آواز کی لہریں پیدا کرتا ہے اور جب یہ آپ کے کان تک پہنچتی ہیں، تب آپ کا دماغ ان کو بطور آواز کے سمجھتا ہے۔
آواز کی لہریں طول بلدی ہوتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سفر کرتے وقت ایک ہی سمت میں مرتعش ہوتی ہیں، اور کئی سطحوں سے منعکس ہو کر گونج پیدا ہوتی ہے۔ آواز کی لہروں کی صورت کو بصری آلہ سے دیکھا جا سکتا ہے اور یہ پیدا ہوئی آواز کی قسم کے بارے میں کافی کچھ بتاتا ہے۔
مختصراً
آواز کی لہروں کا تعدد ارتعاش ہرٹز میں ناپا جاتا ہے۔ انسان صرف 20 اور 20,000 ہرٹز کے درمیان کی آوازوں کو سن سکتے ہیں، کیونکہ ہمارے کانوں کو جاننے کے لئے اس سے اوپر کی بہت زیادہ ہائی پچڈ (صوتی لہر کے تعدّد سے انتہائی متعلقہ مقدار کی )ہوتی ہیں۔ تاہم، اس اعلی تعدد کی آواز کو ، جو الٹراساؤنڈ کے طور پر جانی جاتی ہیں، کتوں اور بلیوں سمیت بعض جانوروں سن سکتے ہیں اور ادویات میں ان کا بہت مفید استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ
جب الٹرا ساؤنڈ کی لہریں دو مختلف کثافتوں کی چیزوں کے درمیان کی حد میں پہنچتی ہیں، ان میں سے کچھ واپس تھوڑا گونج کی طرح منعکس ہو جاتی ہیں۔ دو لہروں کو واپس پہنچنے کے وقت کی پیمائش کر کے، حدود کے فاصلے کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ اس کا استعمال رحم مادر میں بچوں کے لئے کیا جاتا ہے، کیونکہ رحم کے سیال کے درمیان حد اور بچے کے نرم بافتوں کو پیٹ میں موجود بچے کی تصویر بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آواز ہوا، پانی یا ٹھوس کے ذریعہ مرتعش ہوتی ہے اور آپ کا دماغ اس کو برقی اشاروں میں تبدیل کرتا ہے۔ آواز کی صورت آواز کی مقدار اور پچ کا تعین کرتی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں؟
وہیل، ڈالفن اور چمگادڑ آواز کی لہروں کے عکس کو راستہ تلاش کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں، ایک تیکنیک جو ایکو لوکیشن سے جانی جاتی ہے۔
آواز کی رفتار
آواز کی رفتار کا انحصار اس ذریعے پر ہوتا ہے جس میں سے وہ گزرتی ہے۔ یہ ہوا میں لگ بھگ 340 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے، تاہم پانی میں اس کی رفتار اس سے چار گنا زیادہ ہوتی ہے اور کچھ مخصوص ٹھوس چیزوں میں اس سے بھی تیز۔ تاہم اس کی رفتار روشنی جتنی تیز نہیں ہوتی جو ہوا میں 300,000,000 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گزرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار آپ آواز کے ماخذ کو اس کی آواز سننے سے پہلے ہی دیکھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی جسم آواز کی رفتار سے تیز سفر کرے، تو یہ اپنی پیدا کردہ آواز کی لہروں کو ایک صدماتی لہر میں زور لگاتا ہے۔ آپ اس کو اپنے دماغ میں ایک زور دار گونج کی صورت میں سنتے ہیں اور یہ وہی آواز ہے جب ہوائی جہاز آواز کی رفتار سے تیز سفر کرتا ہے، یا جب کوڑا لہرایا جاتا ہے یا جب غبارہ پھٹتا ہے۔
زمین کی پیدائش حیرت انگیز تحقیق
زمین کی پیدائش
زمین سورج سے دور جاتے ہوئےتیسرے نمبر کا سیارہ جس پر ہم رہتے ہیں، ہمارا تمام علم، ہماری تہذیب، تمدن، مذھب، سائنس اور رہن سہن سبھی اس چھوٹے سے پتھریلے سیارے کی وجہ سے ہے، اگر زمین نہ ہوتی تو ہم نہ ہوتے، ہم نہ ہوتےتو نہ ہمارے ہونے کا سوال پوچھا جاتا نا ہی ہم خود کو اہم اور اشرف المخلوقات سمجھتے، زمین کی پیدائش کیسے ہوئی؟ اس متعلق بہت سے اساطیری قصے و کہانیاں زمانہ قدیم ہی سے موجود ہیں، ہر زمانے کے انسان نے اپنے زمانے اور سوچ کے مطابق مختلف کہانیاں گھڑیں جن میں اس نے زمین و آسمان کی پیدائش کیسے ہوئی اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ مگر آج ہم سائنس کے ذریعے سے حاصل کیئے گئے علم کے ذریعے زمین کے وجود میں آنے کے سوال کا جواب انتہائی احسن طریقے سے دے سکتے ہیں۔
جب زمین کے وجود کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ وسیع و عریض سیارہ کیسے وجود میں آیا کیسے بنا ؟ اس سوال کا جواب وقت کے لحاظ سے انتہائی طویل ہے، کیونکہ زمین کی پیدائش کے لئے بنیادی محرکات زمین کی پیدائش سے کہیں پہلے وجود میں آ چکے تھے، بلکہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے وجود کے لئے محرک اول(Primary Cause) خود بگ بینگ تھا۔ بگ بینگ کے بعد جب کائنات پیدا ہوئی تو اس 99 فیصد سے بھی زیادہ مقدار ہائڈروجن گیس کی تھی، باقی 1 فیصد سے بھی کم مقدار میں ابتدائی طور پر ہیلئیم اور لیتھئیم بھی وجود میں آئی تھیں۔ ہماری زمین غالب طور پر لوہے، آکسیجن، فاسفورس، کاربن، سلیکان سے مل کر بنی ہے۔ بگ بینگ کے وقت لوہا اور آکیسجن توموجود ہی نہیں تھے، پھر یہ عناصر زمین میں کیسے موجود ہیں؟ اس کا جواب ہمیں ستاروں کے اندر ہونے والے نیوکلیائی فیوژن کے عمل (Nuclear Fusion)اور ان کی موت میں ملتا ہے، بہت سے ستارے جو سورج سے تقریباً تین گنا بڑے ہوتے ہیں وہ اپنا ہائڈروجن ایندھن انتہائی تیزی سے استعمال کرتے ہوئے بھاری عناصر بناتے ہیں اور آخر میں ایک دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں، اور جتنے بھی بھاری عناصر وہ اپنی موت کے دوران بناتے ہیں ان کو کہکشاں میں گیسوں کی صورت میں پھیلا دیتے ہیں۔ ہائڈروجن، ہیلئیم اور لیتھئیم کے علاوہ تمام ہی عناصر اس عمل کے دوران بنتے ہیں۔
اس عمل کے ہی مطابق زمین کے وجود سے کہیں پہلے کچھ ستارے تھے، جو اپنا نیوکلائی فیوژن کا تابکار عمل کرتے رہے اور آخرکار اپنی موت کے وقت لوہا، آکسیجن اور دوسرے عناصر ملکی وے کہکشاں میں پھیلا گئے، جو عناصر ان قدیم ستاروں کی موت پر بنے وہ گیس کے بڑے بڑے بادلوں کی شکل میں ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش تھے، ہم نہیں جانتے کہ یہ گیسوں کا بادل کتنا عرصہ کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش رہا، مگر آج سے تقریبا 4.7 ارب سال پہلے اس گیسوں کے بادل کے قریب ہی میں کسی سوپر نووا ستارے کے پھٹنے سے ایک ایسا دھماکا پیدا ہوا جس سے اس گیسوں کے بادل میں ازتزلال کی لہریں دوڑ گئیں اور انہی لہروں کے باعث یہ گیسوں کا بادل اپنی ہی ثقالت کے باعث سمٹنے لگا، اس وقت اس گیسوں کے بادل میں گیس نے آپس میں مل کر کھربوں کی تعداد میں شہابیوں کو جنم دیا۔ یہ شہابیے اس گیسوں کے بادل میں ہائڈروجن اور دوسری ہلکی گیسوں کے علاوہ پائے جانے والے عناصر کے ملنے سے بنے، مگر اس گیسوں کے بادل کے مرکز پر موجود گیس اندر کی جانب گرنے سے سورج کی پیدائش ہوئی، مگر دوسرے ایسے مراکز جہاں پر گیس گری وہاں ہمارے بڑے گیسی سیاروں یعنی، مشتری، زحل اور نیپچون کا جنم ہوا، یہ ہمارے نظام شمسی کا بیرونی حصہ ہے۔
مگر سورج اپنی پیدائش کے دوران تابکاری خارج کر کے اپنے قریب میں مادے کی صفائی کرنے لگا، یعنی قریب میں پائی جانے والی ہائڈروجن گیس یا تو سورج نے خود جذب کر لی یا پھر اس کو اپنے ابتدائی دنوں میں انتہائی قوی تابکاری خارج کرنے کے دورن پرے دھکیل دیا جس کے باعث یہ گیس جا کر مشتری کے مدار تک پہنچ گئی ۔ مگر دوسری جانب پتھریلے شہابیے جو نظام شمسی کی پیدائش کے عمل کے دوران پیدا ہوئے تھے سورج سے خارج ہونے والی تابکاری کے باوجود سورج سے قریب یعنی اندرونی نظام شمسی(Internal Solar System) میں موجود رہے، اس وقت اندرونی نظام شمی یعنی ہمارے نظام شمسی کا وہ حصہ جو سورج سے سیارے مریخ تک ہے سورج کے گرد محو گردش کھربوں شہابیوں کی آماجگاہ تھی، یہ شہابیے اپنے اپنے مداروں میں سورج کے گرد گھوم رہے تھے۔ اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے تھے، یہ نومولود نظام شمسی ہمارے نظام کے مقابلے میں انتہائی غیر مستحکم تھا، کوئی بھی شہابیہ اپنی اصل حالت میں رہ پانا ممکن نہ تھا، اسی دوران کشش ثقل کے باعث مختلف حصوں میں بڑے شہابیوں نے چھوٹے شہابیوں کو کشش ثقل کے باعث کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیا۔ اسی باعث نظام شمسی میں چھوٹے چھوٹے سیاروں جن کو پروٹو پلینٹ (Proto Planet)کہا جاتا ہے کا جنم ہوا، اس دوران ہزاروں کی تعداد میں سیارے پیدا ہوئے مگر یہ ایک دوسرے کے مداروں میں مداخلت (Crossed Orbits)کرتے تھے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے، ساتھ ہی یہ شہابیوں کو بھی اپنی طرف کھینچتے رہتے تھے، اس وقت میں ہر سیکنڈ میں نظام شمسی میں کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں اجسام ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، شہابیے شہابیوں سے ٹکراتے، سیارے سیاروں سے، شہابیے سیاروں سے، اور پھر چھوٹے سیارے بڑے سیاروں سے ٹکرا کر ان میں زم ہو جاتے، اس وقت نظام شمسی میں پائے جانے والے تمام ہی سیارے جلتی ہوئی پتھر کی گیندوں کی طرح تھے، یہ اپنے اردگرد کے مادے کو کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کر رہے تھے، اور ہر بار جب یہ کسی شہابیے کو اپنے اندر شامل کرتے تو ٹکراؤ کے باعث درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا کہ پورے کے پورے سیارے آگ کی لپیٹ میں آ جاتے۔ یہ عمل کروڑوں سال تک چلتا رہا۔
حتی کے سورج سے باہر جاتے ہوئے دائروں میں چھوٹے سیاروں کے ملاپ سے چار بڑے سیارے یعنی، عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ بن گئے مگر ان کے علاوہ ابھی بھی اندرونی نظام شمسی میں بہت سے چھوٹے چھوٹے سیارے اور شہابیے موجود تھے جو ان سیاروں سے مسلسل ٹکرا رہے تھے۔ ہمارے چار سیارے اپنے بڑے ہجم کے بجائے ان باقی چھوٹے سیاروں سے کہیں زیادہ کشش ثقل رکھتے تھے جس کے باعث جب چھوٹے سیارے ان سے ٹکراتے تو وہ ان سیاروں میں زم ہو کر بڑے سیاروں کے مادے اور ہجم میں اضافہ کرتے جاتے۔ آنے والے کروڑوں سالوں تک یہی عمل چلتا رہا حتیٰ کہ یہ چار سیارے اپنے اردگرد شہابیوں کو کشش ثقل سے کھینچ کھینچ کر اپنے اندر زم کرتے رہے ایسا ہونے سےاندرونی نظام شمسی کا مطلع صاف ہو گیا، یہی عمل بیرونی نظام شمسی میں بھی ہوا، گیسوں کو سورج سے ابتدائی دور میں خارج ہونے والی تابکاری نے پرے دھکیل دیا باقی کا مادہ اور گیسیں سیاروں نے اپنے اندر جذب کر لیں اس طرح سے نظام شمسی ایک شفاف جگہ بن گئی۔
اسی عمل کے دورن سورج سے تیسری دوری پر ہماری زمین کا جنم ہوا، اس وقت زمین پگھلے ہوئے پتھروں سے بنی ہوئی ایک گیند تھی، اس کی سطح پر ٹھوس پتھروں کے بجائے لاوے کا ایک سمندر موجزن تھا، کروڑوں سال تک یہ عمل چلا اور زمین کچھ ٹھنڈی ہوئی مگر پھر ہمارے ہی قرب و جوار میں موجود ایک چھوٹا سیارہ جس کو سائنسدان تھیا کے نام سے پکارتے ہیں محو گردش تھا، اس سیارے کا مدار زمین کے مدار سے میل کھاتا تھا جس کے باعث یہ سیارہ زمین سے ٹکرا گیا، اس سے زمین کی باہری سطح یعنی کرسٹ علیحدہ ہو کر خلاء میں چلی گئی اور زمین اور تھیا دونوں کے آہنی مراکز آپس میں مل گئے اس سے زمین کے ہجم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور زمین اپنے موجودہ ہجم جتنی بڑی ہو گئی۔ مگر زمین کے کرسٹ کا وہ حصہ جو خلاء میں معلق ہوا ایک گیند کی شکل اختیار کر کے زمین گے گرد محو گردش ہو گیا، اس گیند کو ہم آج چاند کہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر چاند زمین کے انتہائی قریب تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زمین سے قدرے دور ہو گیا۔ جب زمین اور تھیا آپس میں ٹکرائے تو زمین ایک بار پھر پگھلی ہوئی حالت میں آگئی اور لاوے کا سمندر ٹھنڈا ہونے میں لاکھوں سال لگے، اس کے بعد ہی زمین کی سطح ٹھنڈی ہوئی اور مگر آج بھی زمین اندر سے گرم ہے کیونکہ اس کی پیدائش کے دوران ہونے والے ان گنت ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی حرارت آج بھی اس کے اندروں میں موجود تابکار مادوں کی حرارت کے ساتھ مل کر اس کو اندر سے گرم رکھتے ہیں اور یہی عمل پلیٹ ٹکٹانک کے عمل کو چلاتا ہے۔
زمین کی پیدائش آج سے تقریباً 4.54 ارب سال پہلے ہوئی، زمین پر پائے جانے والے قدیم ترین پتھر ریڈیو میٹرک ڈیٹنگ کے مطابق تقریباً 4.5 ارب سال پرانے پائے گئے ہیں، ساتھ ہی مختلف شہابیوں کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ کے ذریعے ان کی عمر تقریباً 4.6 ارب سال پائی گئی ہے، اب جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شہابیے نظام شمسی کی پیدائش کے وقت ہی وجود میں آئے تھے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ سے ہمیں زمین اور نظام شمسی کی پیدائش کے وقت کا درست تعین ہوتا ہے۔
غالب کمال
زمین سورج سے دور جاتے ہوئےتیسرے نمبر کا سیارہ جس پر ہم رہتے ہیں، ہمارا تمام علم، ہماری تہذیب، تمدن، مذھب، سائنس اور رہن سہن سبھی اس چھوٹے سے پتھریلے سیارے کی وجہ سے ہے، اگر زمین نہ ہوتی تو ہم نہ ہوتے، ہم نہ ہوتےتو نہ ہمارے ہونے کا سوال پوچھا جاتا نا ہی ہم خود کو اہم اور اشرف المخلوقات سمجھتے، زمین کی پیدائش کیسے ہوئی؟ اس متعلق بہت سے اساطیری قصے و کہانیاں زمانہ قدیم ہی سے موجود ہیں، ہر زمانے کے انسان نے اپنے زمانے اور سوچ کے مطابق مختلف کہانیاں گھڑیں جن میں اس نے زمین و آسمان کی پیدائش کیسے ہوئی اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ مگر آج ہم سائنس کے ذریعے سے حاصل کیئے گئے علم کے ذریعے زمین کے وجود میں آنے کے سوال کا جواب انتہائی احسن طریقے سے دے سکتے ہیں۔
جب زمین کے وجود کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ وسیع و عریض سیارہ کیسے وجود میں آیا کیسے بنا ؟ اس سوال کا جواب وقت کے لحاظ سے انتہائی طویل ہے، کیونکہ زمین کی پیدائش کے لئے بنیادی محرکات زمین کی پیدائش سے کہیں پہلے وجود میں آ چکے تھے، بلکہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے وجود کے لئے محرک اول(Primary Cause) خود بگ بینگ تھا۔ بگ بینگ کے بعد جب کائنات پیدا ہوئی تو اس 99 فیصد سے بھی زیادہ مقدار ہائڈروجن گیس کی تھی، باقی 1 فیصد سے بھی کم مقدار میں ابتدائی طور پر ہیلئیم اور لیتھئیم بھی وجود میں آئی تھیں۔ ہماری زمین غالب طور پر لوہے، آکسیجن، فاسفورس، کاربن، سلیکان سے مل کر بنی ہے۔ بگ بینگ کے وقت لوہا اور آکیسجن توموجود ہی نہیں تھے، پھر یہ عناصر زمین میں کیسے موجود ہیں؟ اس کا جواب ہمیں ستاروں کے اندر ہونے والے نیوکلیائی فیوژن کے عمل (Nuclear Fusion)اور ان کی موت میں ملتا ہے، بہت سے ستارے جو سورج سے تقریباً تین گنا بڑے ہوتے ہیں وہ اپنا ہائڈروجن ایندھن انتہائی تیزی سے استعمال کرتے ہوئے بھاری عناصر بناتے ہیں اور آخر میں ایک دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں، اور جتنے بھی بھاری عناصر وہ اپنی موت کے دوران بناتے ہیں ان کو کہکشاں میں گیسوں کی صورت میں پھیلا دیتے ہیں۔ ہائڈروجن، ہیلئیم اور لیتھئیم کے علاوہ تمام ہی عناصر اس عمل کے دوران بنتے ہیں۔
اس عمل کے ہی مطابق زمین کے وجود سے کہیں پہلے کچھ ستارے تھے، جو اپنا نیوکلائی فیوژن کا تابکار عمل کرتے رہے اور آخرکار اپنی موت کے وقت لوہا، آکسیجن اور دوسرے عناصر ملکی وے کہکشاں میں پھیلا گئے، جو عناصر ان قدیم ستاروں کی موت پر بنے وہ گیس کے بڑے بڑے بادلوں کی شکل میں ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش تھے، ہم نہیں جانتے کہ یہ گیسوں کا بادل کتنا عرصہ کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش رہا، مگر آج سے تقریبا 4.7 ارب سال پہلے اس گیسوں کے بادل کے قریب ہی میں کسی سوپر نووا ستارے کے پھٹنے سے ایک ایسا دھماکا پیدا ہوا جس سے اس گیسوں کے بادل میں ازتزلال کی لہریں دوڑ گئیں اور انہی لہروں کے باعث یہ گیسوں کا بادل اپنی ہی ثقالت کے باعث سمٹنے لگا، اس وقت اس گیسوں کے بادل میں گیس نے آپس میں مل کر کھربوں کی تعداد میں شہابیوں کو جنم دیا۔ یہ شہابیے اس گیسوں کے بادل میں ہائڈروجن اور دوسری ہلکی گیسوں کے علاوہ پائے جانے والے عناصر کے ملنے سے بنے، مگر اس گیسوں کے بادل کے مرکز پر موجود گیس اندر کی جانب گرنے سے سورج کی پیدائش ہوئی، مگر دوسرے ایسے مراکز جہاں پر گیس گری وہاں ہمارے بڑے گیسی سیاروں یعنی، مشتری، زحل اور نیپچون کا جنم ہوا، یہ ہمارے نظام شمسی کا بیرونی حصہ ہے۔
مگر سورج اپنی پیدائش کے دوران تابکاری خارج کر کے اپنے قریب میں مادے کی صفائی کرنے لگا، یعنی قریب میں پائی جانے والی ہائڈروجن گیس یا تو سورج نے خود جذب کر لی یا پھر اس کو اپنے ابتدائی دنوں میں انتہائی قوی تابکاری خارج کرنے کے دورن پرے دھکیل دیا جس کے باعث یہ گیس جا کر مشتری کے مدار تک پہنچ گئی ۔ مگر دوسری جانب پتھریلے شہابیے جو نظام شمسی کی پیدائش کے عمل کے دوران پیدا ہوئے تھے سورج سے خارج ہونے والی تابکاری کے باوجود سورج سے قریب یعنی اندرونی نظام شمسی(Internal Solar System) میں موجود رہے، اس وقت اندرونی نظام شمی یعنی ہمارے نظام شمسی کا وہ حصہ جو سورج سے سیارے مریخ تک ہے سورج کے گرد محو گردش کھربوں شہابیوں کی آماجگاہ تھی، یہ شہابیے اپنے اپنے مداروں میں سورج کے گرد گھوم رہے تھے۔ اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے تھے، یہ نومولود نظام شمسی ہمارے نظام کے مقابلے میں انتہائی غیر مستحکم تھا، کوئی بھی شہابیہ اپنی اصل حالت میں رہ پانا ممکن نہ تھا، اسی دوران کشش ثقل کے باعث مختلف حصوں میں بڑے شہابیوں نے چھوٹے شہابیوں کو کشش ثقل کے باعث کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیا۔ اسی باعث نظام شمسی میں چھوٹے چھوٹے سیاروں جن کو پروٹو پلینٹ (Proto Planet)کہا جاتا ہے کا جنم ہوا، اس دوران ہزاروں کی تعداد میں سیارے پیدا ہوئے مگر یہ ایک دوسرے کے مداروں میں مداخلت (Crossed Orbits)کرتے تھے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے، ساتھ ہی یہ شہابیوں کو بھی اپنی طرف کھینچتے رہتے تھے، اس وقت میں ہر سیکنڈ میں نظام شمسی میں کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں اجسام ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، شہابیے شہابیوں سے ٹکراتے، سیارے سیاروں سے، شہابیے سیاروں سے، اور پھر چھوٹے سیارے بڑے سیاروں سے ٹکرا کر ان میں زم ہو جاتے، اس وقت نظام شمسی میں پائے جانے والے تمام ہی سیارے جلتی ہوئی پتھر کی گیندوں کی طرح تھے، یہ اپنے اردگرد کے مادے کو کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کر رہے تھے، اور ہر بار جب یہ کسی شہابیے کو اپنے اندر شامل کرتے تو ٹکراؤ کے باعث درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا کہ پورے کے پورے سیارے آگ کی لپیٹ میں آ جاتے۔ یہ عمل کروڑوں سال تک چلتا رہا۔
حتی کے سورج سے باہر جاتے ہوئے دائروں میں چھوٹے سیاروں کے ملاپ سے چار بڑے سیارے یعنی، عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ بن گئے مگر ان کے علاوہ ابھی بھی اندرونی نظام شمسی میں بہت سے چھوٹے چھوٹے سیارے اور شہابیے موجود تھے جو ان سیاروں سے مسلسل ٹکرا رہے تھے۔ ہمارے چار سیارے اپنے بڑے ہجم کے بجائے ان باقی چھوٹے سیاروں سے کہیں زیادہ کشش ثقل رکھتے تھے جس کے باعث جب چھوٹے سیارے ان سے ٹکراتے تو وہ ان سیاروں میں زم ہو کر بڑے سیاروں کے مادے اور ہجم میں اضافہ کرتے جاتے۔ آنے والے کروڑوں سالوں تک یہی عمل چلتا رہا حتیٰ کہ یہ چار سیارے اپنے اردگرد شہابیوں کو کشش ثقل سے کھینچ کھینچ کر اپنے اندر زم کرتے رہے ایسا ہونے سےاندرونی نظام شمسی کا مطلع صاف ہو گیا، یہی عمل بیرونی نظام شمسی میں بھی ہوا، گیسوں کو سورج سے ابتدائی دور میں خارج ہونے والی تابکاری نے پرے دھکیل دیا باقی کا مادہ اور گیسیں سیاروں نے اپنے اندر جذب کر لیں اس طرح سے نظام شمسی ایک شفاف جگہ بن گئی۔
اسی عمل کے دورن سورج سے تیسری دوری پر ہماری زمین کا جنم ہوا، اس وقت زمین پگھلے ہوئے پتھروں سے بنی ہوئی ایک گیند تھی، اس کی سطح پر ٹھوس پتھروں کے بجائے لاوے کا ایک سمندر موجزن تھا، کروڑوں سال تک یہ عمل چلا اور زمین کچھ ٹھنڈی ہوئی مگر پھر ہمارے ہی قرب و جوار میں موجود ایک چھوٹا سیارہ جس کو سائنسدان تھیا کے نام سے پکارتے ہیں محو گردش تھا، اس سیارے کا مدار زمین کے مدار سے میل کھاتا تھا جس کے باعث یہ سیارہ زمین سے ٹکرا گیا، اس سے زمین کی باہری سطح یعنی کرسٹ علیحدہ ہو کر خلاء میں چلی گئی اور زمین اور تھیا دونوں کے آہنی مراکز آپس میں مل گئے اس سے زمین کے ہجم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور زمین اپنے موجودہ ہجم جتنی بڑی ہو گئی۔ مگر زمین کے کرسٹ کا وہ حصہ جو خلاء میں معلق ہوا ایک گیند کی شکل اختیار کر کے زمین گے گرد محو گردش ہو گیا، اس گیند کو ہم آج چاند کہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر چاند زمین کے انتہائی قریب تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زمین سے قدرے دور ہو گیا۔ جب زمین اور تھیا آپس میں ٹکرائے تو زمین ایک بار پھر پگھلی ہوئی حالت میں آگئی اور لاوے کا سمندر ٹھنڈا ہونے میں لاکھوں سال لگے، اس کے بعد ہی زمین کی سطح ٹھنڈی ہوئی اور مگر آج بھی زمین اندر سے گرم ہے کیونکہ اس کی پیدائش کے دوران ہونے والے ان گنت ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی حرارت آج بھی اس کے اندروں میں موجود تابکار مادوں کی حرارت کے ساتھ مل کر اس کو اندر سے گرم رکھتے ہیں اور یہی عمل پلیٹ ٹکٹانک کے عمل کو چلاتا ہے۔
زمین کی پیدائش آج سے تقریباً 4.54 ارب سال پہلے ہوئی، زمین پر پائے جانے والے قدیم ترین پتھر ریڈیو میٹرک ڈیٹنگ کے مطابق تقریباً 4.5 ارب سال پرانے پائے گئے ہیں، ساتھ ہی مختلف شہابیوں کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ کے ذریعے ان کی عمر تقریباً 4.6 ارب سال پائی گئی ہے، اب جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شہابیے نظام شمسی کی پیدائش کے وقت ہی وجود میں آئے تھے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ سے ہمیں زمین اور نظام شمسی کی پیدائش کے وقت کا درست تعین ہوتا ہے۔
غالب کمال
Subscribe to:
Posts (Atom)