فاٹا میں یوتھ پالیسی کیوں نہیں؟
رفعت اللہ اورکزئئ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
29 دسمبر 2016
پاکستان کو قائم ہوئے تقریباً ستر سال ہوگئے ہیں لیکن وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں نوجوانوں کےلیے ابھی تک کسی قسم کی یوتھ پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
فاٹا سمیت ملک کی بیشتر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تاہم یونیورسٹیز اور کالجوں میں زیرتعلیم طلبہ کو کئی دہائیوں سے ہر شعبہ زندگی میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
اس ضمن میں خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں خواتین اور نوجوانوں کی حقوق کےلیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم اوئیر گرل یعنی باشعور خواتین کی طرف سے ایک سیمنار کا اہتمام کیا گیا جس میں قبائلی علاقوں کے نوجوانوں، اراکین پارلمینٹ اور سیاسی رہنماؤں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اس موقع پر بی بی سی فیس بک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے اوئیر گرل کی چئیرپرسن گلالائی اسمعیل نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں جو پالیسیاں بنتی ہیں اور جو فیصلے کئے جاتے ہیں ان میں نوجوانوں کو شامل نہیں کیا جاتا حالانکہ ان علاقوں کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی نوجوانوں کو فاٹا میں جنگ کے ایندھن کے طورپر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے وہاں جان بوجھ کر ایف سی آر جیسے کالے قوانین بنائے گئے تاکہ وہاں خلاء کو پیدا کیا جائے اور معصوم طلبہ کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کیا جاسکے۔
ان کے مطابق ماضی میں ایسی پالیسیاں مرتب کی گئی جس کی وجہ سے نوجوانوں کو مجبوراً شدت پسند تنظیموں کا حصہ بنایا گیا اور ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ خود اپنے مستبقل کا فیصلہ کرسکے۔
فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن خواتین ونگ کی صدر سمرین خان وزیر نے کہا کہ فاٹا میں نوجوانوں کےلیے یوتھ پالیسی بنانا حکومت کی ترجیح ہی نہیں تو کیسے پالیسی بنی گی اور یوتھ کی حالت کیسے بہتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سابق گورنر خیبر پختونخوا بیرسٹر مسعود کوثر نے اپنے دور کے آخری دنوں میں یوتھ پالیسی بنانے کی منظوری دی تھی لیکن اس پر بھی ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نوجوانوں کی حالت بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں
اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون نوشین فاطمہ نے کہا کہ چند دن پہلے ایک پرورگرام میں فاٹا کے ایک نوجوان نے قبائلی علاقوں میں رائج ' کالا قانون' ایف سی آر کے خلاف صرف ایک نعرہ بلند کیا تھا لیکن اسکی پاداشت میں اسے ایک ہفتہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں اگر فاٹا کے نوجوانوں کو احتجاج کا حق حاصل نہیں تو وہاں یوتھ کےلیے پالیسی بنانے میں کون سنجیدہ ہوگا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے حکومت مزید فاٹا کے عوام اور نوجوانوں کو محکم نہیں رکھ سکتی۔۔
ان کے مطابق فاٹا میں یوتھ پالیسی اس صورت میں بنی گی جب حکومت تھوڑی سی سنجیدگی دکھائے اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر ان کواس عمل کا حصہ بنائے۔
رفعت اللہ اورکزئئ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
29 دسمبر 2016
پاکستان کو قائم ہوئے تقریباً ستر سال ہوگئے ہیں لیکن وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں نوجوانوں کےلیے ابھی تک کسی قسم کی یوتھ پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
فاٹا سمیت ملک کی بیشتر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تاہم یونیورسٹیز اور کالجوں میں زیرتعلیم طلبہ کو کئی دہائیوں سے ہر شعبہ زندگی میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
اس ضمن میں خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں خواتین اور نوجوانوں کی حقوق کےلیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم اوئیر گرل یعنی باشعور خواتین کی طرف سے ایک سیمنار کا اہتمام کیا گیا جس میں قبائلی علاقوں کے نوجوانوں، اراکین پارلمینٹ اور سیاسی رہنماؤں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اس موقع پر بی بی سی فیس بک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے اوئیر گرل کی چئیرپرسن گلالائی اسمعیل نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں جو پالیسیاں بنتی ہیں اور جو فیصلے کئے جاتے ہیں ان میں نوجوانوں کو شامل نہیں کیا جاتا حالانکہ ان علاقوں کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی نوجوانوں کو فاٹا میں جنگ کے ایندھن کے طورپر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے وہاں جان بوجھ کر ایف سی آر جیسے کالے قوانین بنائے گئے تاکہ وہاں خلاء کو پیدا کیا جائے اور معصوم طلبہ کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کیا جاسکے۔
ان کے مطابق ماضی میں ایسی پالیسیاں مرتب کی گئی جس کی وجہ سے نوجوانوں کو مجبوراً شدت پسند تنظیموں کا حصہ بنایا گیا اور ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ خود اپنے مستبقل کا فیصلہ کرسکے۔
فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن خواتین ونگ کی صدر سمرین خان وزیر نے کہا کہ فاٹا میں نوجوانوں کےلیے یوتھ پالیسی بنانا حکومت کی ترجیح ہی نہیں تو کیسے پالیسی بنی گی اور یوتھ کی حالت کیسے بہتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سابق گورنر خیبر پختونخوا بیرسٹر مسعود کوثر نے اپنے دور کے آخری دنوں میں یوتھ پالیسی بنانے کی منظوری دی تھی لیکن اس پر بھی ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نوجوانوں کی حالت بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں
اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون نوشین فاطمہ نے کہا کہ چند دن پہلے ایک پرورگرام میں فاٹا کے ایک نوجوان نے قبائلی علاقوں میں رائج ' کالا قانون' ایف سی آر کے خلاف صرف ایک نعرہ بلند کیا تھا لیکن اسکی پاداشت میں اسے ایک ہفتہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں اگر فاٹا کے نوجوانوں کو احتجاج کا حق حاصل نہیں تو وہاں یوتھ کےلیے پالیسی بنانے میں کون سنجیدہ ہوگا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے حکومت مزید فاٹا کے عوام اور نوجوانوں کو محکم نہیں رکھ سکتی۔۔
ان کے مطابق فاٹا میں یوتھ پالیسی اس صورت میں بنی گی جب حکومت تھوڑی سی سنجیدگی دکھائے اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر ان کواس عمل کا حصہ بنائے۔
ہمارے لئیے دوررس بہتر نتائج کے لئیے قومی دائرے
ReplyDeleteمیں شامل کیا جائیے