انور سعید سے
فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام پر وارد سوالات کے مفصل جوابات:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زیرنظر پوسٹ میں فاٹا کے پختونخواہ میں ادغام پر مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور تحفظات کا تفصیل سے جوابات دینے کی سعی کی جائے گی۔ تا کہ جملہ متعلققین کے لئے فیصلہ کرنے میں سہولت رہے۔ کو شش کی جائے گی کہ سطحی معلومات سے صرف نظر کرکے زمینی حقائق کو قارئین کے سامنے رکھوں۔
1: فاٹا ، بطور علیحدہ صوبہ:
فاٹا صوبہ کے قیام میں بہت سارے موانع موجود ہیں جن کے باعث الگ صوبہ ممکن نہیں۔ فاٹا کی جغرافیائی ساخت ، نامناسب مواصلاتی نظام ، انتظامی اور مالیاتی انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی ایسے عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے الگ صوبہ بنانا تقریباً ناممکن ہے ۔ اگر صوبہ بنایا بھی گیا تو اس کو اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس صورت میں ہمہ وقت وفاق اور دوسرے صوبوں کے لئے درد سر بنا رہے گا ۔ متذکرہ صدر انفرااسٹرکچر کے قیام میں ایک صدی اور بیت جائے گی ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جو ں دوا کی ۔ گزشتہ بیس سالوں سے ایک میڈیکل کالج کے قیام پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ فاٹا سکرٹریٹ فاٹا کی بجائے پشاور میں موجود ہے آخر ایسا کیوں ہے ۔ ناممکنات کےپیچھے بھا گنے کی بجائے عملئت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
2: انضمام کی صورت میں وسائل سے محرومی:
بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ انضمام کی صورت میں ہم اپنے معدنی وسائل اور متوقع راہداریوں کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ قطعی بے بنیاد اختراع ہے ۔ بلکہ اس کے برعکس ہمارے پاس اضافی وسائل میسر آجائیں گے۔ مثلاً کے پی کے کو بجلی کی رائلٹی کے مد میں ملنی والی رقم میں ہم بھی حصہ دار ہونگے ۔ آٹھارویں آئینی ترمیم کے صوبوں کو بے پناہ وسائل میسر ہیں ۔ ہم بھی استفادہ کر سکیں گے ۔ فاٹا کے متوقع محاصل سے کے پی کے کے وسائل کہی زیادہ ہیں ۔ تاہم علاقائی وسائل پر پہلا حق ان علاقوں کا ہے ۔ جہاں یہ وسائل دستیاب ہو ۔ مثلاً کرک سے پیدا ہونے والے گیس اور تیل پر ان کو مراعات دی جارہی ہیں ۔ یوں فاٹا کو ایڈجسٹ کرنے کے آئینی طریقہ کار بھی موجود ہیں ۔ یعنی ادغام کی صورت میں کم وسائل کے ساتھ ہم زیادہ حصہ لینے کے پوزیشن میں ہوںگے ۔ سو وسائل کی محرومی کی بات بالکل غلط ہے
3: کوٹہ اور دیگر مراعات سے محرومی:
بعض لوگوں کا یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ کہ انضمام کی صورت میں ہم تعلیمی اور دوسرے اداروں میں کوٹہ سے محروم ہو جائیں گے ۔ اس ضمن میں تواتر سے لکھتا آ رہا ہوں ۔ اپنے دوستوں کو بتاتا چلوں ۔ کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی آئینی انتظام موجود ہیں ۔ صوبہ سندھ میں سندھ رورل اور سندھ اربن کیلئے الگ الگ کوٹہ مختص ہیں ۔ چنانچہ فاٹا کوٹہ کو سندھ رورل کی طرز پر تحفظ دیا جا سکتا ہے ۔ بلوچستان میں بھی اے ایریا اور بی ایریا موجود ہیں ۔ سو کوٹہ سے متعلق خدشات بھی درست نہیں۔
4: سینٹ اور قومی اسمبلی میں نشستوں میں کمی:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ادغام کی صورت میں فاٹا کی نشستیں کم ہو جائے گی ۔ یہ قیاس بھی صحیح نہیں ہے ۔ آئین کی رو سے آبادی ک بنیاد پر نشستوں کا تعین کیا گیا ہے ۔ فاٹا کو نشستیں خیرات میں نہیں ملی ہیں ان کو با قاعدہ آئینی تحفظ حاصل ہے ۔ لیکن تاکید تعدد مقدار پر ہونا چاہئے ۔ ہماری نمائندگی پہلے سے زیادہ موثر ہو گی ۔ مقامی سطح پر ہمیں صوبائی اسمبلی کی صورت میں موثر پلیٹ فارم میسر آ جائے گی ۔
(تحریر: Anwar Saeed Dawar)
فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام پر وارد سوالات کے مفصل جوابات:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زیرنظر پوسٹ میں فاٹا کے پختونخواہ میں ادغام پر مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور تحفظات کا تفصیل سے جوابات دینے کی سعی کی جائے گی۔ تا کہ جملہ متعلققین کے لئے فیصلہ کرنے میں سہولت رہے۔ کو شش کی جائے گی کہ سطحی معلومات سے صرف نظر کرکے زمینی حقائق کو قارئین کے سامنے رکھوں۔
1: فاٹا ، بطور علیحدہ صوبہ:
فاٹا صوبہ کے قیام میں بہت سارے موانع موجود ہیں جن کے باعث الگ صوبہ ممکن نہیں۔ فاٹا کی جغرافیائی ساخت ، نامناسب مواصلاتی نظام ، انتظامی اور مالیاتی انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی ایسے عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے الگ صوبہ بنانا تقریباً ناممکن ہے ۔ اگر صوبہ بنایا بھی گیا تو اس کو اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس صورت میں ہمہ وقت وفاق اور دوسرے صوبوں کے لئے درد سر بنا رہے گا ۔ متذکرہ صدر انفرااسٹرکچر کے قیام میں ایک صدی اور بیت جائے گی ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جو ں دوا کی ۔ گزشتہ بیس سالوں سے ایک میڈیکل کالج کے قیام پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ فاٹا سکرٹریٹ فاٹا کی بجائے پشاور میں موجود ہے آخر ایسا کیوں ہے ۔ ناممکنات کےپیچھے بھا گنے کی بجائے عملئت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
2: انضمام کی صورت میں وسائل سے محرومی:
بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ انضمام کی صورت میں ہم اپنے معدنی وسائل اور متوقع راہداریوں کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ قطعی بے بنیاد اختراع ہے ۔ بلکہ اس کے برعکس ہمارے پاس اضافی وسائل میسر آجائیں گے۔ مثلاً کے پی کے کو بجلی کی رائلٹی کے مد میں ملنی والی رقم میں ہم بھی حصہ دار ہونگے ۔ آٹھارویں آئینی ترمیم کے صوبوں کو بے پناہ وسائل میسر ہیں ۔ ہم بھی استفادہ کر سکیں گے ۔ فاٹا کے متوقع محاصل سے کے پی کے کے وسائل کہی زیادہ ہیں ۔ تاہم علاقائی وسائل پر پہلا حق ان علاقوں کا ہے ۔ جہاں یہ وسائل دستیاب ہو ۔ مثلاً کرک سے پیدا ہونے والے گیس اور تیل پر ان کو مراعات دی جارہی ہیں ۔ یوں فاٹا کو ایڈجسٹ کرنے کے آئینی طریقہ کار بھی موجود ہیں ۔ یعنی ادغام کی صورت میں کم وسائل کے ساتھ ہم زیادہ حصہ لینے کے پوزیشن میں ہوںگے ۔ سو وسائل کی محرومی کی بات بالکل غلط ہے
3: کوٹہ اور دیگر مراعات سے محرومی:
بعض لوگوں کا یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ کہ انضمام کی صورت میں ہم تعلیمی اور دوسرے اداروں میں کوٹہ سے محروم ہو جائیں گے ۔ اس ضمن میں تواتر سے لکھتا آ رہا ہوں ۔ اپنے دوستوں کو بتاتا چلوں ۔ کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی آئینی انتظام موجود ہیں ۔ صوبہ سندھ میں سندھ رورل اور سندھ اربن کیلئے الگ الگ کوٹہ مختص ہیں ۔ چنانچہ فاٹا کوٹہ کو سندھ رورل کی طرز پر تحفظ دیا جا سکتا ہے ۔ بلوچستان میں بھی اے ایریا اور بی ایریا موجود ہیں ۔ سو کوٹہ سے متعلق خدشات بھی درست نہیں۔
4: سینٹ اور قومی اسمبلی میں نشستوں میں کمی:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ادغام کی صورت میں فاٹا کی نشستیں کم ہو جائے گی ۔ یہ قیاس بھی صحیح نہیں ہے ۔ آئین کی رو سے آبادی ک بنیاد پر نشستوں کا تعین کیا گیا ہے ۔ فاٹا کو نشستیں خیرات میں نہیں ملی ہیں ان کو با قاعدہ آئینی تحفظ حاصل ہے ۔ لیکن تاکید تعدد مقدار پر ہونا چاہئے ۔ ہماری نمائندگی پہلے سے زیادہ موثر ہو گی ۔ مقامی سطح پر ہمیں صوبائی اسمبلی کی صورت میں موثر پلیٹ فارم میسر آ جائے گی ۔
(تحریر: Anwar Saeed Dawar)
بہت زبردست
ReplyDelete