انور سعید داوڑ
مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی میں قدر مشترک : انور سعید داوڑ ************************************************مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی فاٹا ایشو پر ایک ہی پیج پر دیکھائ دے رہے ہیں ۔ دونوں میں قدر مشترک یہ ہے ۔ کہ دونوں ایک آڑ کے پیچھے چپ کر سیاست کر رہے ہیں ۔ ایک اسلام کی آڑ لے کر سیاست کر رہا ہے ۔ اور دوسرا پشتون قوم پرستی کی آڑ لے کر سیاست میں مصروف عمل ہے۔ دونوں نے ان اعلیٰ وارفع مقاصد کو فایدے کے بجائے نقصان پہنچایا ہیں ۔ مولانا صاحب عرصہ دراز سے اپنے چھ سات نشستیں لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ جاتے ہے ۔ حکومت وقت سے بارگین کرکے حصہ بقدر جثہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہے ۔ اور یوں حضرت کی سیاست کامیابی سے رواں دواں رہتا ہے ۔ اس پورے عمل میں اسلام کا کیا بول بالا ہوا ? یہ سوال قارئین کی خدمت میں تشنہ جواب رکھنا چاہتا ہوں ۔ ذرا غور فرمائے پورے پاکستان سے جمعیت العلما اسلام کو جو مینڈیٹ ملا ۔ اس مینڈیٹ کا ارتکاز جناب اکرم درانی وفاقی وزیر برائے ہاوسنگ اینڈ ورکس پر ہوا ۔ جمعیت کی عوامی رائے ایک وزارت کیلئے استعمال تو ہوا ، مگر مولانا اپنے ووٹرزکے سامنے وضاحت کرنا پسند فرماییں گے ۔ کہ اکرم درانی کی وزارت سے اسلام کو کتنا فائدہ ہوا ۔ ہاں اگر فائدہ ہوا تو درانی صاحب اور مولانا برادران کو ہوا ۔ مولانا اور درانی نےخو ب ترقی کے منازل طے کرکے آگے بڑھیں ہیں مگر اسلام نے کوئی ترقی نہیں کی ۔ اسلام کا مقدس نام استعمال ہوا ۔ جو بنفسہ دین کیلئے نقصان کا باعث ہے ۔۔ یہی قصہ جناب اچکزئی صاحب کا بھی ہے ۔ محمود اچکزئی اور اس کے والد مرحوم صمد خان اچکزئی نے پوری عمر پشتون قوم پرستی کے نام پر سیاست کی ۔ خارجی اور داخلی سامراج پر لعن طعن کی ۔ ریاست پاکستان کی تشنیع کی ۔ موقع ملا تو آج ریاست و وفاق پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر بساط پر نمودار ہوا ۔ اپنے بھائی کو گورنر بنایا ۔ اور درجنوں عزیز اقربا کو بڑے بڑے عہدوں پر متمکن کرایا ۔ اچکزئی صاحب اپنے ووٹرز کے سامنے وضاحت فرمائں گے کہ پشتون کے نام پر لیے گیے ووٹوں سے پشتونوں کو کتنا فائدہ ہوا ۔ جب پشتونوں کی حقوق کی بات چلی ، ان کو حقوق دینے کا وقت آیا ۔ تو موصوف اس کی مخالفت پر اتر آیا ۔ اتحاد کے بجائے انتشار کی بات کرنے لگے ہیں ۔ باپ بیٹا پشتونوں کو تقسیم کرنے والی لکھیروں کو نہیں مانتے تھے ۔ لر او بر یو پشتون ، کی بات کرتے تھے ۔ اب جب وقت آیاتو اس میں روڑے اٹھکا رہے ہیں ۔ فاٹا انضمام کے بجائے فاٹا انتشار کی بات کررہے ہیں ۔ پشتون پرستی کے آ ڑ کے پیچھے چپ کر پشتون کاز کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔ اچکزئی صاحب اور مولانا صاحب نے عجیب وغریب منطق اپنایا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ہم ایف سی آر کے خلاف ہیں ۔ مگر فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کیلئے قبائلیوں کی رائے ضروری ہے ۔ میں عرض کرتا چلو ں کہ صرف ایف سی آر خت ختم کرنے کا فائدہ نہیں نقصان ہے ۔ فاٹا کی موجودہ سیاسی حیثیت کو ختم کرنا بھی ضروری ہے رہی بات ریفرنڈم کی ۔ کیا مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب نہیں جانتے کہ پاکستان میں رفرنڈم کی کیا تاریخ ہے۔ عوامی رائے کی جانچ کے نام پر ہر ریفرنڈم متنازعہ رہا ہے ۔ قبائلی رائے عامہ تو بارہ ممبران کی صورت میں موجودہے پھر بھی ، معلوم حقیقت پر ریفرنڈم پر ضد کرنا مسئلے کو الجھانے کے سوا کچھ نہیں ۔ میں نہ مانوں کا کیا علاج ہے ۔ مجھے چاند چاہئے کی کیا دوا ہے ۔ جاتے جاتے میں اپنے دوستوں کے سامنے سوال چھوڑ کے جاتا ہوں ۔ کیا وہ اپنے جو آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے ہیں ، اچھے ہیں یا وہ غیر جو آپ کے راستے سے کانٹے صاف کرتے ہیں ?ج
No comments:
Post a Comment