Saturday, December 24, 2016

مولانا فضل الرحمان اور اچکزئی

انور سعید داوڑ

مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی میں  قدر مشترک :       انور سعید داوڑ ************************************************مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی فاٹا ایشو پر ایک ہی پیج پر دیکھائ دے رہے ہیں ۔  دونوں میں قدر مشترک یہ ہے  ۔  کہ دونوں ایک آڑ کے پیچھے  چپ کر سیاست کر رہے ہیں ۔ ایک اسلام کی  آڑ لے کر سیاست کر رہا ہے ۔ اور دوسرا پشتون قوم پرستی  کی آڑ لے کر سیاست میں مصروف عمل ہے۔ دونوں نے ان اعلیٰ وارفع مقاصد کو فایدے کے بجائے نقصان پہنچایا ہیں ۔  مولانا صاحب عرصہ دراز سے اپنے  چھ سات  نشستیں لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ جاتے ہے ۔ حکومت وقت سے بارگین کرکے حصہ بقدر جثہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہے ۔ اور یوں حضرت کی سیاست کامیابی سے رواں دواں رہتا ہے  ۔  اس پورے عمل  میں اسلام کا کیا بول بالا ہوا ?  یہ سوال قارئین کی خدمت میں تشنہ جواب رکھنا چاہتا ہوں ۔  ذرا غور فرمائے پورے پاکستان سے جمعیت العلما  اسلام کو جو مینڈیٹ ملا ۔ اس مینڈیٹ کا ارتکاز جناب اکرم درانی وفاقی وزیر برائے ہاوسنگ اینڈ ورکس پر ہوا ۔ جمعیت کی عوامی رائے ایک وزارت کیلئے استعمال تو ہوا ، مگر مولانا اپنے ووٹرزکے سامنے   وضاحت کرنا پسند فرماییں گے ۔ کہ اکرم درانی کی وزارت سے اسلام کو کتنا فائدہ ہوا ۔ ہاں  اگر فائدہ ہوا تو درانی صاحب اور مولانا برادران کو ہوا ۔  مولانا اور درانی نےخو ب ترقی کے منازل طے کرکے  آگے  بڑھیں ہیں  مگر اسلام نے کوئی ترقی نہیں کی ۔ اسلام کا مقدس نام استعمال ہوا ۔ جو بنفسہ دین کیلئے نقصان  کا باعث ہے ۔۔                                        یہی قصہ جناب اچکزئی صاحب کا بھی ہے  ۔ محمود اچکزئی اور اس کے والد مرحوم صمد خان اچکزئی  نے پوری عمر پشتون قوم پرستی کے نام پر سیاست کی ۔ خارجی اور داخلی سامراج  پر لعن طعن کی ۔   ریاست پاکستان کی تشنیع کی ۔ موقع ملا تو آج ریاست و وفاق پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر بساط پر نمودار ہوا ۔ اپنے بھائی کو گورنر بنایا ۔ اور درجنوں عزیز اقربا کو بڑے بڑے عہدوں پر متمکن کرایا ۔ اچکزئی صاحب اپنے ووٹرز کے سامنے وضاحت فرمائں  گے کہ پشتون کے نام پر لیے گیے ووٹوں سے پشتونوں کو کتنا فائدہ ہوا ۔  جب پشتونوں کی حقوق کی بات چلی ، ان  کو حقوق دینے کا وقت آیا  ۔ تو موصوف  اس کی مخالفت پر اتر آیا ۔ اتحاد کے  بجائے انتشار کی بات کرنے لگے ہیں  ۔  باپ بیٹا  پشتونوں کو تقسیم کرنے والی لکھیروں کو نہیں مانتے تھے  ۔ لر او بر یو پشتون  ، کی بات کرتے تھے ۔ اب جب وقت آیاتو اس میں روڑے اٹھکا رہے ہیں  ۔ فاٹا انضمام کے بجائے فاٹا انتشار کی بات کررہے ہیں ۔  پشتون پرستی کے آ ڑ کے پیچھے چپ کر پشتون کاز کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔              اچکزئی صاحب اور مولانا صاحب نے  عجیب وغریب منطق اپنایا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ہم ایف سی  آر  کے خلاف ہیں  ۔ مگر فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کیلئے قبائلیوں کی رائے ضروری ہے ۔  میں عرض کرتا چلو ں کہ صرف ایف سی آر خت ختم  کرنے کا فائدہ نہیں نقصان ہے ۔ فاٹا کی موجودہ سیاسی حیثیت کو ختم کرنا بھی ضروری ہے  رہی بات ریفرنڈم کی ۔ کیا مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب نہیں جانتے کہ پاکستان میں رفرنڈم کی  کیا تاریخ ہے۔  عوامی رائے کی  جانچ کے نام پر  ہر ریفرنڈم متنازعہ رہا ہے ۔ قبائلی رائے عامہ تو بارہ ممبران کی صورت میں موجودہے  پھر بھی ،  معلوم حقیقت پر ریفرنڈم پر ضد کرنا مسئلے کو الجھانے کے  سوا کچھ نہیں ۔  میں نہ مانوں  کا کیا علاج ہے  ۔ مجھے چاند چاہئے کی کیا دوا ہے ۔   جاتے جاتے میں اپنے دوستوں کے سامنے سوال چھوڑ کے جاتا ہوں ۔ کیا وہ اپنے جو آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے ہیں ، اچھے ہیں یا وہ غیر جو آپ کے راستے سے کانٹے صاف کرتے ہیں ?ج

No comments:

Post a Comment