لسانیات کیا ہے؟
زبان کے علم کو لسانیات کہتے ہیں اس میں زبانوں کی آپس میں مشابہت، زبان کی ابتدا اور زبانوں کا آپس میں کیا تعلق ہے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ لسان یاں زبان ایسا عمل ہےجس کے ذریعے مختلف آوازوں، اشاروں کی مدد سے ایک دوسرے تک معلومات کی ترسیل کی جاتی ہے۔
دنیا پہ بسنے والے جانداروں میں سے انسان واحد جاندار ہے جو اپنے احساسات کا اظہار بول کے کر سکتا ہے. لفظ ہمیں ہنساتے، رلاتے، غصہ دلاتے ہیں، لفظوں کے کهیل میں انسان کسی دوسرے انسان کو قابو کر سکتا ہے، کسی لفظ اور اس کے اچها یا برا ہونے کا معیار انسان کا اپنا مقرر کردہ ہوتا ہے، لفظوں کو ہم ہی مقدس یا ہتک آمیز قرار دیتے ہیں. ایک انسان الفاظ کے ذریعے اپنی سوچ کو دوسرے انسان تک منتقل کرتے ہوئے اس کے عمل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈهال سکتا ہے. اپنی اگلی نسل تک اپنے عملی تجربات اور معلومات کی منتقلی کا ایک اہم ذریعہ زبان بهی ہے.
ویزولئیزیشن کسی بھی چیز کی ذہن میں تصویر لانے کے عمل کو کہتے ہیں۔زبان کے لفظوں کا مقصد ان تصویروں کو دوسروں تک پہنچانا ہے لفظ بذات خود کچھ معنی نہیں رکھتے انسان ہی ان کو معنی دیتا ہے۔ ہر حرف، علامات کی ماند ہے اوران کے ملاپ سے لفظ بنتے ہیں۔ اور یہ زبان کا عمل صرف ان دماغی خیالات کو ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں.
اشاروں کی زبان میں انسان کے علاوہ چند دیگر جانور ڈولفن مچهلی، گوریلا، ایشیائی ہاتهی کوشک، چمپینزی، طوطا، وہیل مچهلی، ببونز بن مانس بهی اپنے جذبات کا اظہار اور معلومات بهیجنے کا کام کرتے ہیں, دنیا میں اس وقت تقریباً 6909 زبانیں بولی جاتی ہیں. انسان اپنے گلے، زبان، اور منہ کی بناوٹ سے 1100 فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے صوتی تهرتهراہٹ نکالتا ہے. صوتی تهرتهراہٹ کو ہم آواز کہتے ہیں. انسانی آواز کی فریکوئینسی 30 ہٹز سے لے کر 1100 ہٹز تک ہوتی ہے.
زبان کا استعمال ایک دوسرے تک معلومات کی روانی کے لیے ضروری ہے جس میں خاص لفظوں کا استمعال کیا جاتا ہے مگر کیا اپنی ذات سے بات کرنے کے لیے لفظوں اور زبان کا ویسا ہی استمعال ضروری ہے جیسا کہ دوسروں سے کیا جاتا ہے۔ اس امر میں اگر دیکھا جائے تو اپنی ذات سے بات کرنے کے لئے لفظوں کا استعمال بتدریج کم کر کے مشاہدہ کرنا چاہیے۔ اور ہو سکے تو اپنے آپ سے کبھی بھی لفظوں میں بات نہیں کرنی چاہیے۔
انگریزی جریدے ” زبان ” میں شائع ہونی والی ایک تحقیق کے مطابق ایموزون جنگلوں کے پراہا اور اموندوا قبائل میں اپنے جذبات کے اظہار کے لئے لفظوں کی قلت ہے. شمال مشرقی بهارت میں مارنگ قبیلے کے لوگ تعداد کی گنتی کے لئے صرف تین تک کے اعداد جانتے ہیں. الفاظ کی قلت میں پراہا اور اموندوا قبیلے کے لوگ مارنگ قبیلے جتنے الفاظ بهی نہیں جانتے ہیں.
پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی سے پروفیسر کرس سنہا نے ایمزون کے جنگلوں میں رہنے والے قبائل کی زبانوں کا مطالعہ کیا، شمال مغربی برازیل کے اموندوا قبیلے کے لوگوں کی زبان میں الفاظوں کا نہایت فقدان ہے وقت، ہفتہ، مہینہ اور سال کے لئے ان کے پاس کوئی لفظ نہیں ہے
اموندوا قبیلے کے لوگوں کے ساتھ ماہر لسانیات وینی سمپائیو اور اینتهروپولوجیسٹ ( انسانی نفسیات شناس ) ویرا سلوا سنہا نے آٹھ ہفتے گزارے اور اس بات کا مطالعہ کیا کہ وہ اپنی زبان میں ” اگلے ہفتے” یا ” پچهلے سال” وغیرہ کا اظہار اور ادائیگی کس طرح کرتے ہیں. مطالعہ کے بعد نتائج سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی زبان میں ایسے کوئی لفظ نہیں تهے. وہ صرف دن، رات، خشک اور برساتی موسم کے بارے میں جانتے ہیں، قبیلے کے لوگوں میں عمر کا کوئی تصور نہیں ہے.
یہ ایسے قبائل ہیں جن سے وقت گزرنے کے ساتھ شہر اور دیگر قصبہ و گاؤں سے تعلقات میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ وحشی قبائل اور ایسے قبائل جن کا جدید دنیا سے رابطہ بهی نہیں ہوا امکان ہے کہ ان میں جذبات کے اظہار اور بول چال کے الفاظ نہایت قلیل ہوں گے.
لفظوں کا استعمال دماغ کی سوچنے کی صلاحیت کو کمزور بنا دیتا ہے کیونکہ ذہن کے خیالات کو اگر پہلے لفظوں کا محتاج بنایا جائے تو وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اس لیے دماغ کا زیادہ سے زیادہ اور لفظوں کا کم سے کم استمعال کیا جانا چاہیے۔ اور ترسیل کے اس عمل کو تصویر کی صورت پر ہونا چاہیے۔ اس بات کی دلیل میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ہمارا دماغ تصویر کی طرح ہی سوچتا ہے اور اس کا کام ویزولئیزیشن ہے۔ اگر اپنے آپ سے بات کرنے کے دوران لفظوں کا استعمال کیا جائے تو ذہن کی سوچنے کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے۔
لفظ یا الفاظ خود کچھ نہیں ہوتے ، یہ ایک مخصوص صوتی تهرتهراہٹ ہوتی ہے جسے ہم انسان اشکال کی پہچان کے لئے وضع کرتے ہیں. اس لفظ کو بهی ایک نام یا پہچان انسان نے خود دیا جسے ہم لفظ کہتے ہیں. کسی بیل یا گائے کو نہیں معلوم کہ ہم اسے گائے کہتے ہیں. انسان کو بهی انسان نے خود کہا کہ وہ انسان ہے. ان مخصوص صوتی تهرتهراہٹوں کو بهی ہم اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب ہمیں ان سے منسلک اشکال کا علم ہو، جیسے کسی اجنبی زبان کے الفاظ ہمیں اس لئے سمجهنے میں مشکل ہوتی ہے کیونکہ اس زبان کے الفاظ سے منسلک اشکال سے ہم لا علم ہوتے ہیں.
ایک اور مثال سے اس کی وضاحت کی جائے تو زمین کے گرد گهومتے ایک سیارچے کو صدیوں پہلے ہمارے آباء و اجداد کی طرف سےپہچان کے لئے نام چاند، قمر، ہلال، چندرما یا Moon مختلف خطوں کی مختلف زبانوں میں پہچان کی غرض سے صوتی پہچان ایجاد کی گئی.
ہمارے نام بهی اردگرد موجود چیزوں اور پہچان سے جوڑے جاتے ہیں. اب اگر کسی کا نام قمر ہے تو لفظ قمر زمین کے گرد گهومتے اس سیارچے کی پہچان کے لئے وضع کیا گیا لفظ ہے، پهر وہ شخص جسے قمر بلایا جاتا ہے اس کا اصل نام کیا ہے؟ اور یہ لفظ قمر درحقیقت ہے کیا؟
لفظ اور زبانیں بهی ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد ترقی و تنزلی کی جانب گامزن رہتی ہیں. مستقبل میں بہت سی ایسی زبانیں ناپید ہو جائیں گی جس خطہ کی معیشت زوال پذیر ہو جائے گی اور اس خطہ کے لوگوں پر جس جدید معاشرے کی معیشت غلبہ پا لے گی اس جدید معاشرے کی زبان، مقامی زبان کے الفاظوں پر غلبہ پانے لگے گی. مستقبل بعید میں صرف وہ زبانیں باقی بچ جائیں گی جن میں نت نئی سائنسی علوم کی تحقیق و ایجادات ممکن بنائی جائیں گی.
زبان کے علم کو لسانیات کہتے ہیں اس میں زبانوں کی آپس میں مشابہت، زبان کی ابتدا اور زبانوں کا آپس میں کیا تعلق ہے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ لسان یاں زبان ایسا عمل ہےجس کے ذریعے مختلف آوازوں، اشاروں کی مدد سے ایک دوسرے تک معلومات کی ترسیل کی جاتی ہے۔
دنیا پہ بسنے والے جانداروں میں سے انسان واحد جاندار ہے جو اپنے احساسات کا اظہار بول کے کر سکتا ہے. لفظ ہمیں ہنساتے، رلاتے، غصہ دلاتے ہیں، لفظوں کے کهیل میں انسان کسی دوسرے انسان کو قابو کر سکتا ہے، کسی لفظ اور اس کے اچها یا برا ہونے کا معیار انسان کا اپنا مقرر کردہ ہوتا ہے، لفظوں کو ہم ہی مقدس یا ہتک آمیز قرار دیتے ہیں. ایک انسان الفاظ کے ذریعے اپنی سوچ کو دوسرے انسان تک منتقل کرتے ہوئے اس کے عمل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈهال سکتا ہے. اپنی اگلی نسل تک اپنے عملی تجربات اور معلومات کی منتقلی کا ایک اہم ذریعہ زبان بهی ہے.
ویزولئیزیشن کسی بھی چیز کی ذہن میں تصویر لانے کے عمل کو کہتے ہیں۔زبان کے لفظوں کا مقصد ان تصویروں کو دوسروں تک پہنچانا ہے لفظ بذات خود کچھ معنی نہیں رکھتے انسان ہی ان کو معنی دیتا ہے۔ ہر حرف، علامات کی ماند ہے اوران کے ملاپ سے لفظ بنتے ہیں۔ اور یہ زبان کا عمل صرف ان دماغی خیالات کو ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں.
اشاروں کی زبان میں انسان کے علاوہ چند دیگر جانور ڈولفن مچهلی، گوریلا، ایشیائی ہاتهی کوشک، چمپینزی، طوطا، وہیل مچهلی، ببونز بن مانس بهی اپنے جذبات کا اظہار اور معلومات بهیجنے کا کام کرتے ہیں, دنیا میں اس وقت تقریباً 6909 زبانیں بولی جاتی ہیں. انسان اپنے گلے، زبان، اور منہ کی بناوٹ سے 1100 فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے صوتی تهرتهراہٹ نکالتا ہے. صوتی تهرتهراہٹ کو ہم آواز کہتے ہیں. انسانی آواز کی فریکوئینسی 30 ہٹز سے لے کر 1100 ہٹز تک ہوتی ہے.
زبان کا استعمال ایک دوسرے تک معلومات کی روانی کے لیے ضروری ہے جس میں خاص لفظوں کا استمعال کیا جاتا ہے مگر کیا اپنی ذات سے بات کرنے کے لیے لفظوں اور زبان کا ویسا ہی استمعال ضروری ہے جیسا کہ دوسروں سے کیا جاتا ہے۔ اس امر میں اگر دیکھا جائے تو اپنی ذات سے بات کرنے کے لئے لفظوں کا استعمال بتدریج کم کر کے مشاہدہ کرنا چاہیے۔ اور ہو سکے تو اپنے آپ سے کبھی بھی لفظوں میں بات نہیں کرنی چاہیے۔
انگریزی جریدے ” زبان ” میں شائع ہونی والی ایک تحقیق کے مطابق ایموزون جنگلوں کے پراہا اور اموندوا قبائل میں اپنے جذبات کے اظہار کے لئے لفظوں کی قلت ہے. شمال مشرقی بهارت میں مارنگ قبیلے کے لوگ تعداد کی گنتی کے لئے صرف تین تک کے اعداد جانتے ہیں. الفاظ کی قلت میں پراہا اور اموندوا قبیلے کے لوگ مارنگ قبیلے جتنے الفاظ بهی نہیں جانتے ہیں.
پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی سے پروفیسر کرس سنہا نے ایمزون کے جنگلوں میں رہنے والے قبائل کی زبانوں کا مطالعہ کیا، شمال مغربی برازیل کے اموندوا قبیلے کے لوگوں کی زبان میں الفاظوں کا نہایت فقدان ہے وقت، ہفتہ، مہینہ اور سال کے لئے ان کے پاس کوئی لفظ نہیں ہے
اموندوا قبیلے کے لوگوں کے ساتھ ماہر لسانیات وینی سمپائیو اور اینتهروپولوجیسٹ ( انسانی نفسیات شناس ) ویرا سلوا سنہا نے آٹھ ہفتے گزارے اور اس بات کا مطالعہ کیا کہ وہ اپنی زبان میں ” اگلے ہفتے” یا ” پچهلے سال” وغیرہ کا اظہار اور ادائیگی کس طرح کرتے ہیں. مطالعہ کے بعد نتائج سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی زبان میں ایسے کوئی لفظ نہیں تهے. وہ صرف دن، رات، خشک اور برساتی موسم کے بارے میں جانتے ہیں، قبیلے کے لوگوں میں عمر کا کوئی تصور نہیں ہے.
یہ ایسے قبائل ہیں جن سے وقت گزرنے کے ساتھ شہر اور دیگر قصبہ و گاؤں سے تعلقات میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ وحشی قبائل اور ایسے قبائل جن کا جدید دنیا سے رابطہ بهی نہیں ہوا امکان ہے کہ ان میں جذبات کے اظہار اور بول چال کے الفاظ نہایت قلیل ہوں گے.
لفظوں کا استعمال دماغ کی سوچنے کی صلاحیت کو کمزور بنا دیتا ہے کیونکہ ذہن کے خیالات کو اگر پہلے لفظوں کا محتاج بنایا جائے تو وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اس لیے دماغ کا زیادہ سے زیادہ اور لفظوں کا کم سے کم استمعال کیا جانا چاہیے۔ اور ترسیل کے اس عمل کو تصویر کی صورت پر ہونا چاہیے۔ اس بات کی دلیل میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ہمارا دماغ تصویر کی طرح ہی سوچتا ہے اور اس کا کام ویزولئیزیشن ہے۔ اگر اپنے آپ سے بات کرنے کے دوران لفظوں کا استعمال کیا جائے تو ذہن کی سوچنے کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے۔
لفظ یا الفاظ خود کچھ نہیں ہوتے ، یہ ایک مخصوص صوتی تهرتهراہٹ ہوتی ہے جسے ہم انسان اشکال کی پہچان کے لئے وضع کرتے ہیں. اس لفظ کو بهی ایک نام یا پہچان انسان نے خود دیا جسے ہم لفظ کہتے ہیں. کسی بیل یا گائے کو نہیں معلوم کہ ہم اسے گائے کہتے ہیں. انسان کو بهی انسان نے خود کہا کہ وہ انسان ہے. ان مخصوص صوتی تهرتهراہٹوں کو بهی ہم اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب ہمیں ان سے منسلک اشکال کا علم ہو، جیسے کسی اجنبی زبان کے الفاظ ہمیں اس لئے سمجهنے میں مشکل ہوتی ہے کیونکہ اس زبان کے الفاظ سے منسلک اشکال سے ہم لا علم ہوتے ہیں.
ایک اور مثال سے اس کی وضاحت کی جائے تو زمین کے گرد گهومتے ایک سیارچے کو صدیوں پہلے ہمارے آباء و اجداد کی طرف سےپہچان کے لئے نام چاند، قمر، ہلال، چندرما یا Moon مختلف خطوں کی مختلف زبانوں میں پہچان کی غرض سے صوتی پہچان ایجاد کی گئی.
ہمارے نام بهی اردگرد موجود چیزوں اور پہچان سے جوڑے جاتے ہیں. اب اگر کسی کا نام قمر ہے تو لفظ قمر زمین کے گرد گهومتے اس سیارچے کی پہچان کے لئے وضع کیا گیا لفظ ہے، پهر وہ شخص جسے قمر بلایا جاتا ہے اس کا اصل نام کیا ہے؟ اور یہ لفظ قمر درحقیقت ہے کیا؟
لفظ اور زبانیں بهی ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد ترقی و تنزلی کی جانب گامزن رہتی ہیں. مستقبل میں بہت سی ایسی زبانیں ناپید ہو جائیں گی جس خطہ کی معیشت زوال پذیر ہو جائے گی اور اس خطہ کے لوگوں پر جس جدید معاشرے کی معیشت غلبہ پا لے گی اس جدید معاشرے کی زبان، مقامی زبان کے الفاظوں پر غلبہ پانے لگے گی. مستقبل بعید میں صرف وہ زبانیں باقی بچ جائیں گی جن میں نت نئی سائنسی علوم کی تحقیق و ایجادات ممکن بنائی جائیں گی.
No comments:
Post a Comment