تجزیاتی رپورٹ : صیاب بیگ ، تہلکہ ٹی وی
عالمی بینک کے نمائندے نے پاکستان میں غربت کی حد درجہ بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا ۔ بدانتظامی اور کرپشن کو اس مسلئے کی جڑ قرار دیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے حوالے سے پاکستان ایشائی ممالک میں سب سے آگے ہے۔عالمی اداروں کے اعدادوشمار کی روشنی میں مہنگائی پر قابو پالینے کے دعوئے کمزور پڑگئے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی عوام ایک تہائی% 39مفلسی سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں غربت اور مہنگائی تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے اور پچھلے 20برسوں سے یہ عمل تیزی سے بڑھ رہا ہے۔بلوچستان میں مہنگائی کی شرح 71% ، فاٹا میں 73% ،خیبرپختونخوا میں 49% ، گلگت بلتستان اور سندھ میں 43% ،پنجاب میں 31% اور آزاد کشمیر میں 25% لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
یہاں جمہوری حکومتیں بھی رہیں اور فوجی حکومتیں بھی لیکن مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔لوگوں نے مہنگائی اور بیروز گاری سے تنگ آ کر خود کشیاں شروع کر دیں ۔پڑھے لکھے نوجوانوں نے بے روزگاری کی وجہ سے خود کشیاں کیں اور سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں اور ان پڑھ جعلی ڈگریوں والے حکمران ،MNA ،MPA ، بنے بیٹھے ہیں ۔بعض خواتین اپنے بچے اور بچیوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو گئیں۔مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہماری نسلیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں غلط کاریوں میں پڑ گئے ۔عورتیں اپنی عزت لوٹانے میں مجبور ہو گئی جس کی وجہ سے ہماری نسلیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں ۔غربت اور مہنگائی کی وجہ سے ہمارے بچے پڑھ نہیں سکتے ۔ 8,9 سال کی عمر میں مزدوری کرنے پر مجبورہو جاتے ہیں ۔جس عمر میں بچے کے کردار و اخلاقیات اور قائدانہ صلاحیت کو ابھارا جاتا ہے اس عمر میں ہم اپنے بچوں کو مزدوری پر لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کے غلط اثرات بچوں کے ذہنی نشونما پر اثر کرتے ہیں اور اس چھوٹی سی عمر میں بچے غلط کاریوں میں پڑ جاتے ہیں ۔جس معاشرے میں اتنے بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا عمل جاری ہو ،جہاں عدلیہ اور تعلیمی شعبے بھی 92%تک بدعنونی کی دلدل میں دھنسے ہوے ہوں ۔جہاں عام آدمی کیلئے نہ پولیس کسی تحفظ کی ضامن ، نہ انصاف ملنے کی کو ئی امید ہو ۔ آخر اس عام آدمی کا کیا قصور ہے ؟؟
غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ ہشتگردی کو قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ اس حالت میں آخر کون کس کی ضمانت پر ملک میں سرمایہ کاری کرے گا؟ کون صنعتیں لگائے گا؟ اور کون کارخانے لگائے گا ؟ انہی عوامل کی بنیاد پر ملک میں نہ نئی صنعتوں کا قیام ہو ہو رہا اور نہ کوئی برائے راست سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔اس لئے کوئی نیا کاروبار لگانے میں دلچسپی نہیں لے رہاجب تک نئے کاروبار شروع نہ ہوں اور نئی صنعتیں نہ لگائی جائیں تب تک نہ روزگار کیلئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور نہ ہی بے روز گاری ، مہنگائی اور غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ کس جگہ کون سی صنعت لگائی جائے۔جب تک نئی صنعتیں نہیں بن جاتی تب تک بیروزگاری بڑھتی جائے گی اور جو صنعتیں لگائی گی ہیں ان میں پہلے سے اتنے ورکر کام کر رہے ہیں کہ نئے ورکروں کیلئے جگہ ہی نہیں ہوتی ۔کام کیلئے لوگ سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں ۔جو مڈل پاس ہے وہ کو ٹھیوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور جو پوری زندگی پڑھ کر ڈگریاں حاصل کرتے ہیں وہ سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں ۔
یہ ناانصافی اور غیر منصفانہ تقسیم ہے۔اس کی اصلاحات ضروری ہیں ۔کیونکہ امیر ، امیر سے امیر تر اور غریب ،غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔یہاں بادشاہ خدا بن بیٹھے ۔فحاشی اور عریانی عروج پر ہے۔اس ملک میں آٹا مہنگا اور انسان سستا ہو گیا ،کوئی کسی کا نہیں رہا ۔کلاشنکوف عام اور کتابیں جام ہو گی۔حکمران سیاست کے نام پر اپنا کاروبار مضبوط کر رہے ہیں لیکن غریب کو دو وقت کی روٹی میسر ن
No comments:
Post a Comment