میرے پیارے جیالو اور جانثارو سلام،
میں تم سب سے معافی مانگنا چاہتی ہوں کہ آٹھ سال بعد پہلا خط لکھ رہی ہوں۔ اب یہ بتانے کا تو کوئی فائدہ نہیں کہ میں نے کتنی بار سوچا ہوگا، قلم اٹھایا ہوگا اور رکھ دیا ہوگا۔
یہاں زمین کے برعکس سکون ہی سکون ہے۔ زندگی دیکھنے میں ہر طرح سے خوبصورت ہے۔ پاپا اور ماں ساتھ والے کاٹیج میں ہیں۔ شاہنواز بھی انہی کے ساتھ رہتا ہے۔ مرتضی کا کاٹیج کچھ فاصلے پر ہے۔ ویسے وہ یہاں بھی کم کم نظر آتا ہے۔ ہمارے پچھلی طرف ان جیالوں کے لائن سے گھر ہیں جو 18 اکتوبر 2007 کو یہاں پہنچے یا پھر 27 دسمبر کو میرے ساتھ ہی چلے آئے ۔
حالانکہ یہاں کسی بھی طرح کے مسائل نہیں جو زمین پر ہم لوگوں کی زندگی کا حصہ تھے۔ مگر عادت سے مجبور جیالوں کو کون سمجھائے۔ بہانے بہانے رضوان سے چھپ کر کوئی نہ کوئی میٹنگ کر ہی لیتے ہیں۔ میں بھی دل رکھنے کے لیے اکثر چلی جاتی ہوں مگر جب سے میں آئی ہوں پاپا دو ایک بار کے بعد کبھی نہیں گئے۔
پاپا کو ماں نے شاید گھر میں زیادہ رہنے کی عادت ڈال دی ہے یا کبھی دونوں گھر سے نکلتے بھی ہیں تو سامنے کے باغ میں اپنی فیورٹ بنچ پر بیٹھ کر دیر تک پرندوں کی آوازیں سنتے اور ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں۔ اکثر سوچتی ہوں کیا یہ وہی پاپا ہیں جو زمین پر ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھتے تھے اور دو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے تھے
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں، پاپا اور ماں جب بھی مل بیٹھتے ہوں گے تو پاکستان کے حالات ڈسکس کرتے ہوں گے۔ کاش ایسا ہوتا مگر ایسا بالکل نہیں۔ ماں کو تو خیر نیچے کی زندگی کا کچھ یاد ہی نہیں البتہ پاپا سے جب جب پارٹی یا پاکستان کی بات کرنے کی کوشش کی تو فوراً چہرہ سپاٹ اور کان سرخ ہو جاتے۔ کون سی پیپلز پارٹی؟ میرے پاکستان کے تو سب لوگ یہاں ہیں۔ کون ہے جو اب تک زمین پر رہ رہا ہے؟ میں نے کئی بار وضاحت کے لیے منہ کھولنا چاہا پر نہیں کھلا۔
پچھلے ہی دنوں قاضی سلطان بھی یہاں پہنچا ہے۔ اب تک قاضی نے جو جو بتایا ہے اس کے بعد دل چاہتا ہے کچھ دن کے لیے ہی سہی مگر ایک بار پاکستان جاؤں۔ یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ رضوان بھی اب میری سیکورٹی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔
پیارے جیالو! جہاں میں ہوں وہاں کوئی رونا نہیں جانتا۔ مگر یہاں مامور فرشتے شاید مجھ سے یہ صلاحیت واپس لینا بھول گئے۔ اس لیے جب بھی رونے کو جی چاہتا ہے کمرہ بند کرلیتی ہوں تاکہ یہ راز بھی میرے یہاں تک پہنچنے کے راز کی طرح راز ہی رہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں تمہاری طرف سے غافل نہیں البتہ جیسی بے حسی پارٹی پر چھا گئی ہے اس کو دیکھ کر کبھی کبھی سناٹے میں ضرور آجاتی ہوں۔ پھر سوچتی ہوں ایسی خبریں تو آتی ہی رہیں گی۔ دل پر لے کر اپنا وقت اور موڈ کب تک برباد کیا جائے۔
زندگی ہو کہ پارٹی یا ایک خوبصورت مستقبل کی جدوجہد۔ تینوں کا حسن یقین سے بھرپور لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب یقین ہی اٹھ جائے تو کیسی زندگی، کیسی پارٹی اور کون سی جدوجہد۔
مجھے بالکل حیرت نہیں کہ میرے یہاں آنے کے بعد سے پیپلز پارٹی ایک فرنچائز بن چکی ہے۔ سنا ہے اب کوئی بھی سب سے اونچی بولی دینے والا یہ فرنچائز لے سکتا ہے۔ شاید اب یہ پارٹی نہیں وہ مزار ہے جس کے زائرین کی دیکھ بھال سے بے نیاز متولی بس صاحبانِ مزار کے نام پر عقیدت مندوں سے رقم بٹورنے میں لگے ہیں۔ جس کے ہاتھ جو بھی آجائے۔ دکھ بس اتنا ہے کہ یہ متولی آج بھی پاپا اور میرا نام اپنے کاروبار میں استعمال کر رہے ہیں۔
پیارے جیالو اور سرفروشو! مجھے اپنے قاتلوں کے نام جاننے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ پتہ چل بھی جائے تو مجھے کیا فرق پڑے گا۔ مگر افسوس ہے کہ آپ کے ارمانوں کا نیلام بھی اب ہمارے ناموں پر ہو رہا ہے۔ جبکہ ہم نے تو ان ارمانوں کو پروان چڑھایا تھا۔
کوشش کروں گی اگلے خط میں بہت سی اچھی اچھی باتیں کروں۔ مگر کیا کروں۔ آخر ہوں نا بھٹو کی بیٹی۔ جذباتیت ورثے میں ملی ہے۔ پھر بھی کوشش کروں گی جذبات سے عاری ہونے کی۔
نئے سال میں تم سب کی خوشیوں کے لئے دعاؤں کے ساتھ،
تمہاری بے نظیر بی بی بھٹو
میں تم سب سے معافی مانگنا چاہتی ہوں کہ آٹھ سال بعد پہلا خط لکھ رہی ہوں۔ اب یہ بتانے کا تو کوئی فائدہ نہیں کہ میں نے کتنی بار سوچا ہوگا، قلم اٹھایا ہوگا اور رکھ دیا ہوگا۔
یہاں زمین کے برعکس سکون ہی سکون ہے۔ زندگی دیکھنے میں ہر طرح سے خوبصورت ہے۔ پاپا اور ماں ساتھ والے کاٹیج میں ہیں۔ شاہنواز بھی انہی کے ساتھ رہتا ہے۔ مرتضی کا کاٹیج کچھ فاصلے پر ہے۔ ویسے وہ یہاں بھی کم کم نظر آتا ہے۔ ہمارے پچھلی طرف ان جیالوں کے لائن سے گھر ہیں جو 18 اکتوبر 2007 کو یہاں پہنچے یا پھر 27 دسمبر کو میرے ساتھ ہی چلے آئے ۔
حالانکہ یہاں کسی بھی طرح کے مسائل نہیں جو زمین پر ہم لوگوں کی زندگی کا حصہ تھے۔ مگر عادت سے مجبور جیالوں کو کون سمجھائے۔ بہانے بہانے رضوان سے چھپ کر کوئی نہ کوئی میٹنگ کر ہی لیتے ہیں۔ میں بھی دل رکھنے کے لیے اکثر چلی جاتی ہوں مگر جب سے میں آئی ہوں پاپا دو ایک بار کے بعد کبھی نہیں گئے۔
پاپا کو ماں نے شاید گھر میں زیادہ رہنے کی عادت ڈال دی ہے یا کبھی دونوں گھر سے نکلتے بھی ہیں تو سامنے کے باغ میں اپنی فیورٹ بنچ پر بیٹھ کر دیر تک پرندوں کی آوازیں سنتے اور ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں۔ اکثر سوچتی ہوں کیا یہ وہی پاپا ہیں جو زمین پر ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھتے تھے اور دو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے تھے
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں، پاپا اور ماں جب بھی مل بیٹھتے ہوں گے تو پاکستان کے حالات ڈسکس کرتے ہوں گے۔ کاش ایسا ہوتا مگر ایسا بالکل نہیں۔ ماں کو تو خیر نیچے کی زندگی کا کچھ یاد ہی نہیں البتہ پاپا سے جب جب پارٹی یا پاکستان کی بات کرنے کی کوشش کی تو فوراً چہرہ سپاٹ اور کان سرخ ہو جاتے۔ کون سی پیپلز پارٹی؟ میرے پاکستان کے تو سب لوگ یہاں ہیں۔ کون ہے جو اب تک زمین پر رہ رہا ہے؟ میں نے کئی بار وضاحت کے لیے منہ کھولنا چاہا پر نہیں کھلا۔
پچھلے ہی دنوں قاضی سلطان بھی یہاں پہنچا ہے۔ اب تک قاضی نے جو جو بتایا ہے اس کے بعد دل چاہتا ہے کچھ دن کے لیے ہی سہی مگر ایک بار پاکستان جاؤں۔ یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ رضوان بھی اب میری سیکورٹی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔
پیارے جیالو! جہاں میں ہوں وہاں کوئی رونا نہیں جانتا۔ مگر یہاں مامور فرشتے شاید مجھ سے یہ صلاحیت واپس لینا بھول گئے۔ اس لیے جب بھی رونے کو جی چاہتا ہے کمرہ بند کرلیتی ہوں تاکہ یہ راز بھی میرے یہاں تک پہنچنے کے راز کی طرح راز ہی رہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں تمہاری طرف سے غافل نہیں البتہ جیسی بے حسی پارٹی پر چھا گئی ہے اس کو دیکھ کر کبھی کبھی سناٹے میں ضرور آجاتی ہوں۔ پھر سوچتی ہوں ایسی خبریں تو آتی ہی رہیں گی۔ دل پر لے کر اپنا وقت اور موڈ کب تک برباد کیا جائے۔
زندگی ہو کہ پارٹی یا ایک خوبصورت مستقبل کی جدوجہد۔ تینوں کا حسن یقین سے بھرپور لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب یقین ہی اٹھ جائے تو کیسی زندگی، کیسی پارٹی اور کون سی جدوجہد۔
مجھے بالکل حیرت نہیں کہ میرے یہاں آنے کے بعد سے پیپلز پارٹی ایک فرنچائز بن چکی ہے۔ سنا ہے اب کوئی بھی سب سے اونچی بولی دینے والا یہ فرنچائز لے سکتا ہے۔ شاید اب یہ پارٹی نہیں وہ مزار ہے جس کے زائرین کی دیکھ بھال سے بے نیاز متولی بس صاحبانِ مزار کے نام پر عقیدت مندوں سے رقم بٹورنے میں لگے ہیں۔ جس کے ہاتھ جو بھی آجائے۔ دکھ بس اتنا ہے کہ یہ متولی آج بھی پاپا اور میرا نام اپنے کاروبار میں استعمال کر رہے ہیں۔
پیارے جیالو اور سرفروشو! مجھے اپنے قاتلوں کے نام جاننے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ پتہ چل بھی جائے تو مجھے کیا فرق پڑے گا۔ مگر افسوس ہے کہ آپ کے ارمانوں کا نیلام بھی اب ہمارے ناموں پر ہو رہا ہے۔ جبکہ ہم نے تو ان ارمانوں کو پروان چڑھایا تھا۔
کوشش کروں گی اگلے خط میں بہت سی اچھی اچھی باتیں کروں۔ مگر کیا کروں۔ آخر ہوں نا بھٹو کی بیٹی۔ جذباتیت ورثے میں ملی ہے۔ پھر بھی کوشش کروں گی جذبات سے عاری ہونے کی۔
نئے سال میں تم سب کی خوشیوں کے لئے دعاؤں کے ساتھ،
تمہاری بے نظیر بی بی بھٹو
No comments:
Post a Comment