نیند اور خواب کیا ہیں!!
تقریبا نیند کے ڈیڑھ گھنٹے بعد یعنی آر آئی ایم نیند کے مرحلے میں خوب آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس دوران برقی لہریں جو برین سٹم میں پیدا ہوتی ہیں اور یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے جڑا ہوتا ہے۔ ان بے قاعدہ، منتشر برقی لہروں کے نتیجے میں، کیمیاوی مادوں کا ایک سیلاب دماغ کے سامنے والے حصے میں جمع ہو جاتا ہے اس حصے کو فرنٹل لوب کہتے ہیں۔ گرے میٹر یا دماغ کا خاکستری حصہ ان برقی جھٹکوں اور کیمیائی مادوں کے اجتماع سے ترتیب تلاش کرتا ہے۔ اس دوران انسان بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ اور اپنے دماغ کے سامنے ہونے والے واقعات کو دیکھ رہا ہوتا ہے اس عمل کو خواب کہتے ہیں۔ اس طرح صبح جاگنے تک، ہم تین چار مرتبہ مزید اس عمل سے گزرتے ہیں مگر جاگنے کے بعد، شعوری حافظہ، ان خوابوں کی تفصیل بھول چکا ہوتا ہے۔ خواب کی یہ تصویریں، بقول ماہرین نفسیات، اجتماعی لاشعور میں چلی جاتی ہیں۔
1953 میں پہلی دفعہ سائنس نے دماغ کی اُس کیفیت کا پتہ چلا یا جس میں خواب واقع ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق، خواب دیکھنے کے عمل کے دوران؛
٭1 آنکھ کی پتلی تیزی سے حرکت کرتی ہیں
٭2 سانس اور دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی پیدا ہوجاتی ہے
٭3 ہاتھ پاؤں بلکہ سارا جسم شل ہوجاتا اس حالت کو ہی آر آئی ایم نیند کہتے ہیں۔
خواب انسان کے دماغی حصے برین سٹیم میں ہی بنتے ہیں یہ حصہ دل کی دھڑکن، معدہ کی حرکت اور پیشاب بننے کے عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور یہ اعصابی نظام خود کاری ہے یعنی بغیر ارادے کہ اپنا کام سرانجام دیتا رہتا ہے۔ اور اسی کو آٹونومک نروس سسٹم بھی کہتے ہیں اس میں دو اہم قسم کے نیورانز ہوتے ہیں جو نیند کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان میں مختلف قسم کے کیمیائی مادے بنتے ہیں۔
ایک قسم کے نیورانز ایسی ٹائل کولین کیمیائی مادہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ نیورانز آر ای ایم نیند کے دوران آن ہوتے ہیں۔ دوسری طرح کے نیورانز ایپی نیفرین مادہ پیدا کرتے ہیں اور آر آئی ایم نیند کے دوران آف ہوتے ہیں۔ یعنی نیند کے دوران ایسی ٹائل کولین والے نیورانز اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اس کا اندازہ اس طرح لگایا گیا کہ جن بلیوں میں ایسی ٹائل کولین انجیکٹ کی گئی ان میں آر ائی ایم نیند شروع ہو گئی اور جو مریض ایسی ٹائل کولین کی کمی کرنے والی ادویات کھا رہے تھے ان میں خواب آنا بند ہو گئے۔
ایسی ٹائل کولین والے نیورانز جلدی جلدی پیغام دماغ کے سب سے بڑھے حصے کارٹکس یا قشر کو بھیجتا ہے۔ کارٹکس ان پیغامات کو با معنی شکل دے دیتا ہے۔ اور اس عمل کے لیے کارٹکس پہلے سے موجود یاداشت سے مدد لیتا ہے۔ اور پیغامات کو کس طرح کے معنی ملتے ہیں یہ خواب دیکھنے والے کے خوف، خواہش، تجسس اور ذہنی حالت پر منحصر ہوتا ہے۔ کسی چیز سے خوف زدہ شخص با ر بار اسی کے متعلق خواب دیکھتا ہے اور مستقبل کے بارے پریشان شخص کچھ نا کچھ ماضی اور حال کی یاداشت کو ملا کر پیش بینی کو خواب کی صورت دیکھتا ہے۔ اور کارٹکس کا تعلق غور و فکر، تخلیقی کام نئی بات سوچنے کی صلاحیت کے علاوہ وہ تمام کام جو ہم اپنے ارادے سے کرتے ہیں۔ عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ خواب کسی اشارے اور، تصویر اور پیغام کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔ خواب میں تصویریں بڑی واضح ہوتی ہیں کیونکہ دماغ، تسلسل سے کام کرتا ہے اور اعلیٰ درجہ کا تسلسل غیر لفظی اور علامتی ہوتا ہے جو بہت سارے مواد کو ایک مختصر تصویری شکل دے دیتا ہے۔ اسی علامتی طریقہ کار سے حافظہ کے کام کرنے کا سراغ بھی لگایا گیا ہے کہ ہم اپنے حافظہ کو جذباتی مواد یا واقعات کی شکل و صورت یا کسی اور خاص وجہ سے بھی محفوظ یا ترتیب دیتے ہیں۔
آر ای ایم نیند کے دوران بہت سارے نیورانز ایسے ہوتے ہیں جو خواب دیکھنے کے عمل میں حصہ نہیں لیتے ان نیوانز کا تعلق اپنی ذات کے ہونے کا احساس اور توجہ سے ہوتا ہے اس سے انا اور ارادہ معطل ہو چکا ہوتا ہے اور اس لیے ماضی کی یاداشت کام کر رہی ہوتی ہے اور آسانی سے دماغ پرانے واقعات کو پیغام کی شکل بھیج رہا ہوتا ہے۔ اور جب بھی حوش آتا ہے تو تمام خواب بھول جاتے ہیں اس کی سب سے اہم وجہ ان نیورانز کا خواب میں حصہ لینا نہیں ہے جو کہ ایپی نیفرین جیسے کیمیائی مادے خارج کرتے ہیں اور لمبے دورانیے کی یاداشت کی وجہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواب میں سننے، دیکھنے اور بولنے کی حسیں تو کام کر رہی ہوتی ہیں لیکن ذائقہ اور سونگھنے کی حس نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خواب عجیب و غریب اس لیے ہوتے ہیں کہ برین سٹیم سے آنے والی برقی لہریں متغیر ہوتی ہیں جو مختلف قسم کے اشارے، تصویر ایک ہی وقت میں نمودار کر رہیں ہوتیں ہیں۔
اسی طرح ایک تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ طالب علموں کو آواز سے آزاد کمرے میں سونے کو کہا گیا اور ان کے دماغ کی برقی لہریں چیک کیں گئیں جس سے یہ پتا چلا کہ چار قسم کی لہریں انسانی دماغ میں آر ای آیم نیند کے دوران پیدا ہو رہیں تھیں۔ یہ برقی لہریں ڈیلٹا، تھیٹا، الفاء، بیٹا شامل ہیں جن میں ہرایک کی ارتعاش اور برقی طاقت مختلف تھی۔
خوابوں سے بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی کیفیت کا اندازہ بھی ہوا ہے۔ دل کے جن مریضوں نے خواب میں موت، قبرستان اور اس قسم کے سین دیکھے تو اُن میں ہارٹ اٹیک کی شدت دوسرے مریضوں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ فالج زدہ لوگوں کے خواب زیادہ تر تشدد اور مار پیٹ کے مناظر پر مشتمل تھے جوکہ نہایت حیرت کی بات تھی کیونکہ عام طور پر یہ لوگ پرسکون اور خوش باش نظر آتے تھے۔
خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بہت ساری فلسفیانہ، سائنسی اور نفسیاتی نظریات پیش کیے گئے ہیں۔
خواب کی اہم قسموں میں
٭1:دن میں کواب دیکھنا
٭2: خوابِ ساطِع
٭3: ڈراؤنے خواب
٭4: بار بار آنے والے خواب
٭5:شفایابی والے خواب
٭6:سچے خواب٭
7: شہوت والے خواب
٭8: ترقی کرنے والے خواب
٭9: باہمی ایک جیسے خواب
٭10: اشارہ
ان تمام قسموں میں سے کسی نا کسی سے تمام انسانوں کا واسطہ پڑتا ہے مگر اہم نقطہ یہ ہے کہ سچے خواب کیا ہوتے ہیں۔
سچے خواب بنیادی طور پر دماغ کی طرف سے ایک راہنمائی ہوتی ہے کسی انسان کے لیے اور اگر خواب سچ ثابت ہو جائے تو ہمیں اس کے سچے ہونے کا احساس ہو تا ہے ورنہ رات میں بہت سارے خواب ماضی حال اور مسقبل کا تجزیہ کر کے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور کچھ ایسے خواب جو آپ کی سوچ کے عین مطابق ہوتے ہیں آپ خود ہی دماغی طور پر ان کے سچا ہونے پر امادہ ہو کر اس کو سچا ثابت کرنے کے لیے سوچتے یا کوئی اقدام کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ دماغ میں مبینہ عمل ہونے کے پیش نظر خود اپنے خوابوں کو ترتیب دینے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا شعوری دماغ اتنی تیزی سے معلومات کا تجزیہ نہیں کر سکتا جیتنا سب خوابی دماغ کرتا ہے۔ اور دماغ پہلے سے اکھٹی کی ہوئی معلومات کو جمع کر کے ملا کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے عموماً خواب کے عالم میں دماغ کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے جو فورکاسٹ کا کام بھی سرانجام دے سکتا ہے۔
ایسی چند خوابوں میں ابراہم لنکن کی خواب جس میں اس نے اپنے آپ کو قتل سے ایک ہفتہ قبل کفن میں لپٹا دیکھا اور اسی طرح جان ڈونی نے خواب دیکھا کہ فرانس میں آتش فشاں پھٹنے والا ہے اور ایسے ہی ہوا۔
٭٭سچے خوابوں کی قسمیں:
سایہ پر مبنی خواب: یہ وہ خواب ہیں جن میں کوئی مردہ خواب میں آ کر کوئی معلومات دیتا ہے جو آپ سے وابستہ ہوتی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آپ کی سوچ میں چلنے والے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔
الہامی خواب جو نبوت یا ولائت کا دعویٰ کرنے والوں کو آتے ہیں۔ یہ بھی کسی بارے مین بہت سوچنا یہاں تک کہ یاداشت میں وہ غلبہ پر کر خواب میں نمودار ہو جائے۔
غیب کے خواب: ایسے خواب جو اصل وقت میں باہر بھی رونما ہوں اور آپ کو نظر آ رہے ہوں۔ یہ ماحول کی طرف سے خواب میں پیدا ہوے والی برقی لہروں کا متاثر کرنے سے ہوتا ہے۔
اسی طرح کسی پیش گوئی پر مبنی مطلع کرنے والے خواب شامل ہیں۔
خوابوں کی اتنی لمبی تفصیل سے یہ بات ثابت نہیں ہو جاتی کہ یہ ختمی نظریا ت ہیں ابھی خوابوں پر بہت ساری تحقیق ہونا ضروری ہے جس سے انسانی دماغ کے بہت سارے رموز آشکار ہو سکتے ہیں۔ بہت سارے دوسرے عوامل کی طرح خواب بھی مادے کا کیمیائی تعامل کا بہترین رنگ ہے۔
تقریبا نیند کے ڈیڑھ گھنٹے بعد یعنی آر آئی ایم نیند کے مرحلے میں خوب آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس دوران برقی لہریں جو برین سٹم میں پیدا ہوتی ہیں اور یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے جڑا ہوتا ہے۔ ان بے قاعدہ، منتشر برقی لہروں کے نتیجے میں، کیمیاوی مادوں کا ایک سیلاب دماغ کے سامنے والے حصے میں جمع ہو جاتا ہے اس حصے کو فرنٹل لوب کہتے ہیں۔ گرے میٹر یا دماغ کا خاکستری حصہ ان برقی جھٹکوں اور کیمیائی مادوں کے اجتماع سے ترتیب تلاش کرتا ہے۔ اس دوران انسان بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ اور اپنے دماغ کے سامنے ہونے والے واقعات کو دیکھ رہا ہوتا ہے اس عمل کو خواب کہتے ہیں۔ اس طرح صبح جاگنے تک، ہم تین چار مرتبہ مزید اس عمل سے گزرتے ہیں مگر جاگنے کے بعد، شعوری حافظہ، ان خوابوں کی تفصیل بھول چکا ہوتا ہے۔ خواب کی یہ تصویریں، بقول ماہرین نفسیات، اجتماعی لاشعور میں چلی جاتی ہیں۔
1953 میں پہلی دفعہ سائنس نے دماغ کی اُس کیفیت کا پتہ چلا یا جس میں خواب واقع ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق، خواب دیکھنے کے عمل کے دوران؛
٭1 آنکھ کی پتلی تیزی سے حرکت کرتی ہیں
٭2 سانس اور دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی پیدا ہوجاتی ہے
٭3 ہاتھ پاؤں بلکہ سارا جسم شل ہوجاتا اس حالت کو ہی آر آئی ایم نیند کہتے ہیں۔
خواب انسان کے دماغی حصے برین سٹیم میں ہی بنتے ہیں یہ حصہ دل کی دھڑکن، معدہ کی حرکت اور پیشاب بننے کے عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور یہ اعصابی نظام خود کاری ہے یعنی بغیر ارادے کہ اپنا کام سرانجام دیتا رہتا ہے۔ اور اسی کو آٹونومک نروس سسٹم بھی کہتے ہیں اس میں دو اہم قسم کے نیورانز ہوتے ہیں جو نیند کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان میں مختلف قسم کے کیمیائی مادے بنتے ہیں۔
ایک قسم کے نیورانز ایسی ٹائل کولین کیمیائی مادہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ نیورانز آر ای ایم نیند کے دوران آن ہوتے ہیں۔ دوسری طرح کے نیورانز ایپی نیفرین مادہ پیدا کرتے ہیں اور آر آئی ایم نیند کے دوران آف ہوتے ہیں۔ یعنی نیند کے دوران ایسی ٹائل کولین والے نیورانز اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اس کا اندازہ اس طرح لگایا گیا کہ جن بلیوں میں ایسی ٹائل کولین انجیکٹ کی گئی ان میں آر ائی ایم نیند شروع ہو گئی اور جو مریض ایسی ٹائل کولین کی کمی کرنے والی ادویات کھا رہے تھے ان میں خواب آنا بند ہو گئے۔
ایسی ٹائل کولین والے نیورانز جلدی جلدی پیغام دماغ کے سب سے بڑھے حصے کارٹکس یا قشر کو بھیجتا ہے۔ کارٹکس ان پیغامات کو با معنی شکل دے دیتا ہے۔ اور اس عمل کے لیے کارٹکس پہلے سے موجود یاداشت سے مدد لیتا ہے۔ اور پیغامات کو کس طرح کے معنی ملتے ہیں یہ خواب دیکھنے والے کے خوف، خواہش، تجسس اور ذہنی حالت پر منحصر ہوتا ہے۔ کسی چیز سے خوف زدہ شخص با ر بار اسی کے متعلق خواب دیکھتا ہے اور مستقبل کے بارے پریشان شخص کچھ نا کچھ ماضی اور حال کی یاداشت کو ملا کر پیش بینی کو خواب کی صورت دیکھتا ہے۔ اور کارٹکس کا تعلق غور و فکر، تخلیقی کام نئی بات سوچنے کی صلاحیت کے علاوہ وہ تمام کام جو ہم اپنے ارادے سے کرتے ہیں۔ عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ خواب کسی اشارے اور، تصویر اور پیغام کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔ خواب میں تصویریں بڑی واضح ہوتی ہیں کیونکہ دماغ، تسلسل سے کام کرتا ہے اور اعلیٰ درجہ کا تسلسل غیر لفظی اور علامتی ہوتا ہے جو بہت سارے مواد کو ایک مختصر تصویری شکل دے دیتا ہے۔ اسی علامتی طریقہ کار سے حافظہ کے کام کرنے کا سراغ بھی لگایا گیا ہے کہ ہم اپنے حافظہ کو جذباتی مواد یا واقعات کی شکل و صورت یا کسی اور خاص وجہ سے بھی محفوظ یا ترتیب دیتے ہیں۔
آر ای ایم نیند کے دوران بہت سارے نیورانز ایسے ہوتے ہیں جو خواب دیکھنے کے عمل میں حصہ نہیں لیتے ان نیوانز کا تعلق اپنی ذات کے ہونے کا احساس اور توجہ سے ہوتا ہے اس سے انا اور ارادہ معطل ہو چکا ہوتا ہے اور اس لیے ماضی کی یاداشت کام کر رہی ہوتی ہے اور آسانی سے دماغ پرانے واقعات کو پیغام کی شکل بھیج رہا ہوتا ہے۔ اور جب بھی حوش آتا ہے تو تمام خواب بھول جاتے ہیں اس کی سب سے اہم وجہ ان نیورانز کا خواب میں حصہ لینا نہیں ہے جو کہ ایپی نیفرین جیسے کیمیائی مادے خارج کرتے ہیں اور لمبے دورانیے کی یاداشت کی وجہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواب میں سننے، دیکھنے اور بولنے کی حسیں تو کام کر رہی ہوتی ہیں لیکن ذائقہ اور سونگھنے کی حس نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خواب عجیب و غریب اس لیے ہوتے ہیں کہ برین سٹیم سے آنے والی برقی لہریں متغیر ہوتی ہیں جو مختلف قسم کے اشارے، تصویر ایک ہی وقت میں نمودار کر رہیں ہوتیں ہیں۔
اسی طرح ایک تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ طالب علموں کو آواز سے آزاد کمرے میں سونے کو کہا گیا اور ان کے دماغ کی برقی لہریں چیک کیں گئیں جس سے یہ پتا چلا کہ چار قسم کی لہریں انسانی دماغ میں آر ای آیم نیند کے دوران پیدا ہو رہیں تھیں۔ یہ برقی لہریں ڈیلٹا، تھیٹا، الفاء، بیٹا شامل ہیں جن میں ہرایک کی ارتعاش اور برقی طاقت مختلف تھی۔
خوابوں سے بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی کیفیت کا اندازہ بھی ہوا ہے۔ دل کے جن مریضوں نے خواب میں موت، قبرستان اور اس قسم کے سین دیکھے تو اُن میں ہارٹ اٹیک کی شدت دوسرے مریضوں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ فالج زدہ لوگوں کے خواب زیادہ تر تشدد اور مار پیٹ کے مناظر پر مشتمل تھے جوکہ نہایت حیرت کی بات تھی کیونکہ عام طور پر یہ لوگ پرسکون اور خوش باش نظر آتے تھے۔
خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بہت ساری فلسفیانہ، سائنسی اور نفسیاتی نظریات پیش کیے گئے ہیں۔
خواب کی اہم قسموں میں
٭1:دن میں کواب دیکھنا
٭2: خوابِ ساطِع
٭3: ڈراؤنے خواب
٭4: بار بار آنے والے خواب
٭5:شفایابی والے خواب
٭6:سچے خواب٭
7: شہوت والے خواب
٭8: ترقی کرنے والے خواب
٭9: باہمی ایک جیسے خواب
٭10: اشارہ
ان تمام قسموں میں سے کسی نا کسی سے تمام انسانوں کا واسطہ پڑتا ہے مگر اہم نقطہ یہ ہے کہ سچے خواب کیا ہوتے ہیں۔
سچے خواب بنیادی طور پر دماغ کی طرف سے ایک راہنمائی ہوتی ہے کسی انسان کے لیے اور اگر خواب سچ ثابت ہو جائے تو ہمیں اس کے سچے ہونے کا احساس ہو تا ہے ورنہ رات میں بہت سارے خواب ماضی حال اور مسقبل کا تجزیہ کر کے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور کچھ ایسے خواب جو آپ کی سوچ کے عین مطابق ہوتے ہیں آپ خود ہی دماغی طور پر ان کے سچا ہونے پر امادہ ہو کر اس کو سچا ثابت کرنے کے لیے سوچتے یا کوئی اقدام کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ دماغ میں مبینہ عمل ہونے کے پیش نظر خود اپنے خوابوں کو ترتیب دینے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا شعوری دماغ اتنی تیزی سے معلومات کا تجزیہ نہیں کر سکتا جیتنا سب خوابی دماغ کرتا ہے۔ اور دماغ پہلے سے اکھٹی کی ہوئی معلومات کو جمع کر کے ملا کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے عموماً خواب کے عالم میں دماغ کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے جو فورکاسٹ کا کام بھی سرانجام دے سکتا ہے۔
ایسی چند خوابوں میں ابراہم لنکن کی خواب جس میں اس نے اپنے آپ کو قتل سے ایک ہفتہ قبل کفن میں لپٹا دیکھا اور اسی طرح جان ڈونی نے خواب دیکھا کہ فرانس میں آتش فشاں پھٹنے والا ہے اور ایسے ہی ہوا۔
٭٭سچے خوابوں کی قسمیں:
سایہ پر مبنی خواب: یہ وہ خواب ہیں جن میں کوئی مردہ خواب میں آ کر کوئی معلومات دیتا ہے جو آپ سے وابستہ ہوتی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آپ کی سوچ میں چلنے والے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔
الہامی خواب جو نبوت یا ولائت کا دعویٰ کرنے والوں کو آتے ہیں۔ یہ بھی کسی بارے مین بہت سوچنا یہاں تک کہ یاداشت میں وہ غلبہ پر کر خواب میں نمودار ہو جائے۔
غیب کے خواب: ایسے خواب جو اصل وقت میں باہر بھی رونما ہوں اور آپ کو نظر آ رہے ہوں۔ یہ ماحول کی طرف سے خواب میں پیدا ہوے والی برقی لہروں کا متاثر کرنے سے ہوتا ہے۔
اسی طرح کسی پیش گوئی پر مبنی مطلع کرنے والے خواب شامل ہیں۔
خوابوں کی اتنی لمبی تفصیل سے یہ بات ثابت نہیں ہو جاتی کہ یہ ختمی نظریا ت ہیں ابھی خوابوں پر بہت ساری تحقیق ہونا ضروری ہے جس سے انسانی دماغ کے بہت سارے رموز آشکار ہو سکتے ہیں۔ بہت سارے دوسرے عوامل کی طرح خواب بھی مادے کا کیمیائی تعامل کا بہترین رنگ ہے۔
No comments:
Post a Comment