تعلیم کی اہمیت اور ہمارا نظام تعلیم
تعلیم انفرادی اور اجتماعی طور پر سب کے لئے نہایت اہم ہے۔ تعلیم معاشرے کو بہترشہری ذہین بچے اور باشعور ووٹرز دیتی ہے۔ تعلیم ہر قوم کی بنیاد ہوتی ہے۔ جو قوم کو معاشی دولت، معاشرتی استحکام اور سیاسی قابلیت دیتی ہے۔ تعلیم ایک بہترین سرمایا کاری ہے جو لوگوں کو ملازمت کے مواقع مہیا کرتی ہے اور ایک اچھا انسان بننے میں مدد دیتی ہے۔ انفرادی طور پر تعلیم یافتہ ہونا کسی بھی ملکی کی ترقی و استحکام کے لئے ضروری ہے۔ تعلیم میں سرمایہ کاری بہتر اور پڑھی لکھی لیبر فورس، پیداواری صلاحیتوں اور ہنر مند ورکرز میں اضافہ کری ہے۔ تعلیم میں سرمایہ کاری اور تجارت ترقی یافتہ ممالک میں معاشی و معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے۔ تعلیم حکومت اور عوام دونوں کو برابر نفع دیتی ہے۔ تحریک پاکستان سے قبل برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی شرح خواندگی نہایت کم تھی۔ سرسید احمد خان نے نہایت کم وسائل اور دو مختلف قوموں کے باوجود جو اقدامات اٹھائے اس جیسی مثالیں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایک سکول کو کالج اور یونیورسٹی تک لے گئے جب مسلمان اس وقت ایسی اعلی کاوشیں کر سکتے ہیں۔ تو آج اس آزاد ملک میں کیوں نہیں کر سکتے۔
ہمارے مذبت میں بھی تعلیم پر بہت زور دیا گیا ہے اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کو بہت اہمیت دیاسی لئے جنگی قیدیوں کی رہائی مسلمان بچوں کو پڑھانے کے عوض رکھی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم ان سے مستفید نہیں ہو پا رہے۔ ابتدائی تعلیم بچوں کو ٹھوس بنیاد مہیا کرتی ہے۔ جو سب بچوں کو سکول سے ملتی ہے۔ اگر سکول کا ماحول اور اساتذہ کی حکمت عملی اچھی ہو تو یہ دونوں عوامل بڑھتے بچوں کو ترقی کی جانب راغب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں تو سکولوں کا کوئی حال نہیں ہے۔ نہ صرف پسماندہ علاقوں میں بلکہ شہروں میں بھی۔ گورنمنٹ سکولز کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں۔ میڈیا بھی سکولوں کی زبوں حالی کے حوالے سے اکثر بات کرتا رہتا ہے۔ دیہی علاقوں میں سکولوں کی حالت ذیادہ قابل توجہ ہے کیونکہ اکثر سکولوں کی عمارت بوسیدہ ہو چکی ہے اندر پانی کھڑا ہوتا ہے جس میں بھینسیں بیٹھی نظر آتی ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں سکولوں کو بطور گودام استعمال کیا جا رہا ہے اور کہیں طلباء ٹیچر کے انتظار میں بیٹھے ہیں لیکن استاد چھٹی پر ہے۔ اگر سکول کی عمارتوں کو درگزر کر بھی دیا جائے تو اساتذء کو کون سمجھائے جن کو ہمارے مذہب میں روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور بچوں کی تعلیم کا اس طرح سے حرج نہ کریں۔ کئی سال پہلے اساتذہ گاؤں میں درختوں کے نیچے کھلے میدانوں میں بھی بچوں کو پوری دل جمعی اور ذمہ داری سے پڑھاتے تھے۔ لیکن اب وہ حالات ہی نہیں ہیں۔ خوتین اساتذہ سکولوں میں بچوں سے یا تو پیر دبواتی ہیں یا اپنے ذاتی کام کرواتی ہیں۔ کیا والدین اپنے بچوں کو سکول اس لیے بھیجتے ہیں تاکہ وہ یہ کام کریں اور پڑھائی میں دل نہ لگائیں۔ سکولوں میں بچے جب سوالات کرتے ہیں تو دوسری بار سوالات پوچھنے پر ان کو ڈانٹ کا چپ کروا دیا جاتا ہے۔ کیا یہی وہ تعلیم ہے جس کے لیے ہمارے بچے سکول جاتے ہیں۔
تو بات یہ ہے کہ معیاری تعلیم کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت ہر لحاظ سے اپنی ذمہ داریاں پوری کے۔ بہتر سکول کی عمارتیں تعمیر کی جائیں۔ معیاری انفراسٹکچر تعمیر کیا جائے اور تمام تر ضروری سہولتیں دی جائیں اس طرح نہ صرف تعلیم بھی معیاری ہو گی اور ملک و معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔
No comments:
Post a Comment