انسانی المیہ
بعض کم فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ اب ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں , وحی الہام جزا سزا جنت دوزخ ، نیکی پاکیزگی تقوای طہارت ، یہ ساری چیزیں اب ماضی قدیم کے قصے کہانیاں رہ گئی ہیں ، انسان اب بہت سمجھدار ہو گیا ہے، اُس کی دُم اب گھس گھس کر گر گئی ہے اور وہ اب کسی آسمانی الہامی راہنمائ کا محتاج نہیں رہا۔۔
انسانی عقل اور دلیل انسانی خواھش کی تسکین اور تسلی کے فرائض انجام دیتے ہیں.... یہ ہمارا ہر روز کا مشاہدہ ہے، انسان صرف وہی مطلب اٹھاتا ہے جو وہ اٹھانا چاہتا ہے خواہ قرآن کی آیت ہو یا کسی کا قول، نفس کے فریب اور دھوکوں کو اور ظن تخمین اور بے وقعت اندازوں کو علم کہتا ہے، ہمیشہ اپنے ہاتھوں نقصان اور خسارا اٹھاتا ہے اور اپنی نرگسیت اور خود پسندیوں کے پنجرے میں زندگی کے دن پورے کرکے اندھے گڑھے میں جا گرتا ہے...... پر مانتا نہیں کہ اس کو راہنمائی کی ضرورت ہے.... یا للعجب
ہم تو اس نکتے کو ضرورت وحی الہام کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد سمجھتے ہیں...بعض کم فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ اب ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں , وحی الہام جزا سزا جنت دوزخ ، نیکی پاکیزگی تقوای طہارت ، یہ ساری چیزیں اب ماضی قدیم کے قصے کہانیاں رہ گئی ہیں ، انسان اب بہت سمجھدار ہو گیا ہے، اُس کی دُم اب گھس گھس کر گر گئی ہے اور وہ اب کسی آسمانی الہامی راہنمائ کا محتاج نہیں رہا۔۔
No comments:
Post a Comment