2017۔۔۔ سوشل میڈیا سے عہد کا سال:
====================
پشتون تاریخ پرگزشتہ 34 سال نہایت بھاری گزرے جن میں سے 15سال فاٹا کی بدترین بدامنی کے بھی ہیں۔ آذادی اظہار سے ہم ویسے بھی ناآشنا تھے اوپر سے FCR کی استبدادی شقوں اور ریاستی اداروں نے ابلاغیات کو پنپنے نہیں دیا۔ ذرائع ابلاغ کا گلا اس سفاکی سے گھونٹا گیا کہ علماء نے ریڈیو اور ٹی وی کا استعمال کرنے والوں کے خلاف قتل کے فتوے صادر کئے اور یوں پشتون بلخصوص فاٹا کا قبائلی معاشرہ بند گلی میں داخل ہوتا گیا۔ ہم عالمی تبدیلیوں کے اپنے علاقوں پر اثرات سے بچاؤ کیلئے نہ اپنی حیثیت پہچان سکے اور نہ ہی بچاؤ کی کوئی تدبیر۔ ہم غیور و آذاد قبائل کے غیر حقیقی نعروں میں مست رہے اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دو بہترین ابلاغیاتی ادوار ہم نے خودفراموشی میں گزار دیئے۔ ان دو ادوار میں ہم نہ دنیا کی بات سن سکے نہ اپنی بات دنیا کو سنا سکے۔ ہماری آنکھ کیمپوں میں اس وقت کھلی جب ہم زمینی حقائق کی آگ کی لپیٹ میں مکمل طور پر آچکے تھے۔ ہم نے دربدری اور نقل مکانی کی وہ صعوبتیں دیکھیں جنکا اقوام عالم سوچ بھی نہیں سکتیں، ہمیں اپنے آبائی علاقوں سے نکال دیا گیا، جن سے جڑی یادیں اور محبتیں ہم میں بے چین روحوں کی صورت پھرتی رہیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت ذرائع ابلاغ ارتقاء کے تیسرے یعنی سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہوچکا تھا۔ ۔ ۔ اور یوں فیس بک کی صورت ہماری بے چین روحوں کو ایک مسکن نصیب ہوگیا، ہمارے دکھوں اور گلوں شکووں کو زبان مل گئی اور یوں ہماری یادوں نے الفاظ کی صورت یہاں ڈیرے ڈال لئے۔ ایک ایسا تخیلاتی شہر آباد ہوا کہ جس کی کمزور ٹمٹماتی روشنیوں میں ہمیں اپنا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ جہاں ہم تبادلہ خیال کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاشتے ہیں، جہاں سے ہم ہر اس دراڑ کو بند کرنے کی سعی کرتے ہیں جہاں سے ہمارے مستقبل کی عمارت کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ان شئیر شدہ آئیڈیاز اور الفاظ پر کسی نہ کسی صورت کہیں نہ کہیں عمل ہورہا اورہم دیکھ رہے ہیں کہ پشتون وطن اور بلخصوص فاٹا کی صورت وہ نہیں رہی جو کئی دہائیاں قبل تھی۔ شعور کی یہ سطح بلند ہورہی ہے، وہ لوگ جو سیاسی جلسوں کی بھیڑ بکریاں تھے آج فلاحی تنظیمیں بنا رہے ہیں، ہمارے لوگ سیکھ رہے، سیاسی اور شخصی بت گررہے ہیں، غیر سیاسی لوگ خدمت کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں، ہماری نجی محفلوں میں تفریح کم اور مسائل پر فوکس ذیادہ ہے۔ فیس بک کی یہ دنیا دوستیوں کی ہیئت تبدیل کررہی، ہماری دوستیاں گلی، محلے، شہر، برادری اور مسلک سے نکل کر نظریاتی دھاگوں میں ڈھل رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ نظریاتی دھاگے مضبوط رسیاں بننے والی ہیں۔ ہمارے رجحانات اور ترجیحات بدل رہی ہیں جسکے ثمرات انشاءاللہ نہایت اچھے ہونگے۔
دوران سفر2017 کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور پشتون جوانوں کا فکری سفر ایک نئ شعوری سیڑھی پر قدم رکھ رہا ہے، سوشل میڈیا کا یہ ابلاغیاتی نگر پشتون معاشرے کیلئے کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں، جو ہماری اظہار رائے کا امین ہے، جو ہمارے دربدر معاشرے کا ترجمان ہے، جس سے ہم ناقابل یقین حد تک فوائد لے رہے ہیں اور لے سکتے ہیں۔ لہذا آئیے ہم سب مل کرعہد کریں کہ ہم فیس بک کے اس نظریاتی شہر میں اپنے منفی رویوں پر قابو پائینگے، اپنی ذاتی چپقلشوں، علاقائی خامیوں، طعنوں اور تنگ نظریوں کا کیچڑ ایک دوسرے پر نہیں اچھالینگے۔اثبات کو فروغ دینگے، مثبت لوگوں کو تلاش کر ان سے معماران نظریات کا کام لینگے، متشدد رویوں کو محبت پر قائل کرینگے، اختلاف کو اتفاق میں بدلینگے، ارتقاء کا ساتھ دینگے کہ ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ خداوند تعالی اس نئے سال کو خوشیوں اور امن کے رنگوں کا قوس قزح بنائے۔ آمین۔
___________
(عبدالمجید داوڑ)
====================
پشتون تاریخ پرگزشتہ 34 سال نہایت بھاری گزرے جن میں سے 15سال فاٹا کی بدترین بدامنی کے بھی ہیں۔ آذادی اظہار سے ہم ویسے بھی ناآشنا تھے اوپر سے FCR کی استبدادی شقوں اور ریاستی اداروں نے ابلاغیات کو پنپنے نہیں دیا۔ ذرائع ابلاغ کا گلا اس سفاکی سے گھونٹا گیا کہ علماء نے ریڈیو اور ٹی وی کا استعمال کرنے والوں کے خلاف قتل کے فتوے صادر کئے اور یوں پشتون بلخصوص فاٹا کا قبائلی معاشرہ بند گلی میں داخل ہوتا گیا۔ ہم عالمی تبدیلیوں کے اپنے علاقوں پر اثرات سے بچاؤ کیلئے نہ اپنی حیثیت پہچان سکے اور نہ ہی بچاؤ کی کوئی تدبیر۔ ہم غیور و آذاد قبائل کے غیر حقیقی نعروں میں مست رہے اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دو بہترین ابلاغیاتی ادوار ہم نے خودفراموشی میں گزار دیئے۔ ان دو ادوار میں ہم نہ دنیا کی بات سن سکے نہ اپنی بات دنیا کو سنا سکے۔ ہماری آنکھ کیمپوں میں اس وقت کھلی جب ہم زمینی حقائق کی آگ کی لپیٹ میں مکمل طور پر آچکے تھے۔ ہم نے دربدری اور نقل مکانی کی وہ صعوبتیں دیکھیں جنکا اقوام عالم سوچ بھی نہیں سکتیں، ہمیں اپنے آبائی علاقوں سے نکال دیا گیا، جن سے جڑی یادیں اور محبتیں ہم میں بے چین روحوں کی صورت پھرتی رہیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت ذرائع ابلاغ ارتقاء کے تیسرے یعنی سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہوچکا تھا۔ ۔ ۔ اور یوں فیس بک کی صورت ہماری بے چین روحوں کو ایک مسکن نصیب ہوگیا، ہمارے دکھوں اور گلوں شکووں کو زبان مل گئی اور یوں ہماری یادوں نے الفاظ کی صورت یہاں ڈیرے ڈال لئے۔ ایک ایسا تخیلاتی شہر آباد ہوا کہ جس کی کمزور ٹمٹماتی روشنیوں میں ہمیں اپنا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ جہاں ہم تبادلہ خیال کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاشتے ہیں، جہاں سے ہم ہر اس دراڑ کو بند کرنے کی سعی کرتے ہیں جہاں سے ہمارے مستقبل کی عمارت کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ان شئیر شدہ آئیڈیاز اور الفاظ پر کسی نہ کسی صورت کہیں نہ کہیں عمل ہورہا اورہم دیکھ رہے ہیں کہ پشتون وطن اور بلخصوص فاٹا کی صورت وہ نہیں رہی جو کئی دہائیاں قبل تھی۔ شعور کی یہ سطح بلند ہورہی ہے، وہ لوگ جو سیاسی جلسوں کی بھیڑ بکریاں تھے آج فلاحی تنظیمیں بنا رہے ہیں، ہمارے لوگ سیکھ رہے، سیاسی اور شخصی بت گررہے ہیں، غیر سیاسی لوگ خدمت کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں، ہماری نجی محفلوں میں تفریح کم اور مسائل پر فوکس ذیادہ ہے۔ فیس بک کی یہ دنیا دوستیوں کی ہیئت تبدیل کررہی، ہماری دوستیاں گلی، محلے، شہر، برادری اور مسلک سے نکل کر نظریاتی دھاگوں میں ڈھل رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ نظریاتی دھاگے مضبوط رسیاں بننے والی ہیں۔ ہمارے رجحانات اور ترجیحات بدل رہی ہیں جسکے ثمرات انشاءاللہ نہایت اچھے ہونگے۔
دوران سفر2017 کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور پشتون جوانوں کا فکری سفر ایک نئ شعوری سیڑھی پر قدم رکھ رہا ہے، سوشل میڈیا کا یہ ابلاغیاتی نگر پشتون معاشرے کیلئے کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں، جو ہماری اظہار رائے کا امین ہے، جو ہمارے دربدر معاشرے کا ترجمان ہے، جس سے ہم ناقابل یقین حد تک فوائد لے رہے ہیں اور لے سکتے ہیں۔ لہذا آئیے ہم سب مل کرعہد کریں کہ ہم فیس بک کے اس نظریاتی شہر میں اپنے منفی رویوں پر قابو پائینگے، اپنی ذاتی چپقلشوں، علاقائی خامیوں، طعنوں اور تنگ نظریوں کا کیچڑ ایک دوسرے پر نہیں اچھالینگے۔اثبات کو فروغ دینگے، مثبت لوگوں کو تلاش کر ان سے معماران نظریات کا کام لینگے، متشدد رویوں کو محبت پر قائل کرینگے، اختلاف کو اتفاق میں بدلینگے، ارتقاء کا ساتھ دینگے کہ ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ خداوند تعالی اس نئے سال کو خوشیوں اور امن کے رنگوں کا قوس قزح بنائے۔ آمین۔
___________
(عبدالمجید داوڑ)