Saturday, December 31, 2016

عہد کا سال 2017

2017۔۔۔ سوشل میڈیا سے عہد کا سال:
====================
پشتون تاریخ پرگزشتہ 34 سال نہایت بھاری گزرے جن میں سے 15سال فاٹا کی بدترین بدامنی کے بھی ہیں۔ آذادی اظہار سے ہم ویسے بھی ناآشنا تھے اوپر سے FCR کی استبدادی شقوں اور ریاستی اداروں نے ابلاغیات کو پنپنے نہیں دیا۔ ذرائع ابلاغ کا گلا اس سفاکی سے گھونٹا گیا کہ علماء نے ریڈیو اور ٹی وی کا استعمال کرنے والوں کے خلاف قتل کے فتوے صادر کئے اور یوں پشتون بلخصوص فاٹا کا قبائلی معاشرہ بند گلی میں داخل ہوتا گیا۔ ہم عالمی تبدیلیوں کے اپنے علاقوں پر اثرات سے بچاؤ کیلئے نہ اپنی حیثیت پہچان سکے اور نہ ہی بچاؤ کی کوئی تدبیر۔ ہم غیور و آذاد قبائل کے غیر حقیقی نعروں میں مست رہے اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دو بہترین ابلاغیاتی ادوار ہم نے خودفراموشی میں گزار دیئے۔ ان دو ادوار میں ہم نہ دنیا کی بات سن سکے نہ اپنی بات دنیا کو سنا سکے۔ ہماری آنکھ کیمپوں میں اس وقت کھلی جب ہم زمینی حقائق کی آگ کی لپیٹ میں مکمل طور پر آچکے تھے۔ ہم نے دربدری اور نقل مکانی کی وہ صعوبتیں دیکھیں جنکا اقوام عالم سوچ بھی نہیں سکتیں، ہمیں اپنے آبائی علاقوں سے نکال دیا گیا، جن سے جڑی یادیں اور محبتیں ہم میں بے چین روحوں کی صورت پھرتی رہیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت ذرائع ابلاغ ارتقاء کے تیسرے یعنی سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہوچکا تھا۔ ۔ ۔ اور یوں فیس بک کی صورت ہماری بے چین روحوں کو ایک مسکن نصیب ہوگیا، ہمارے دکھوں اور گلوں شکووں کو زبان مل گئی اور یوں ہماری یادوں نے الفاظ کی صورت یہاں ڈیرے ڈال لئے۔ ایک ایسا تخیلاتی شہر آباد ہوا کہ جس کی کمزور ٹمٹماتی روشنیوں میں ہمیں اپنا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ جہاں ہم تبادلہ خیال کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاشتے ہیں، جہاں سے ہم ہر اس دراڑ کو بند کرنے کی سعی کرتے ہیں جہاں سے ہمارے مستقبل کی عمارت کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ان شئیر شدہ آئیڈیاز اور الفاظ پر کسی نہ کسی صورت کہیں نہ کہیں عمل ہورہا اورہم دیکھ رہے ہیں کہ پشتون وطن اور بلخصوص فاٹا کی صورت وہ نہیں رہی جو کئی دہائیاں قبل تھی۔ شعور کی یہ سطح بلند ہورہی ہے، وہ لوگ جو سیاسی جلسوں کی بھیڑ بکریاں تھے آج فلاحی تنظیمیں بنا رہے ہیں، ہمارے لوگ سیکھ رہے، سیاسی اور شخصی بت گررہے ہیں، غیر سیاسی لوگ خدمت کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں، ہماری نجی محفلوں میں تفریح کم اور مسائل پر فوکس ذیادہ ہے۔ فیس بک کی یہ دنیا دوستیوں کی ہیئت تبدیل کررہی، ہماری دوستیاں گلی، محلے، شہر، برادری اور مسلک سے نکل کر نظریاتی دھاگوں میں ڈھل رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ نظریاتی دھاگے مضبوط رسیاں بننے والی ہیں۔ ہمارے رجحانات اور ترجیحات بدل رہی ہیں جسکے ثمرات انشاءاللہ نہایت اچھے ہونگے۔
دوران سفر2017 کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور پشتون جوانوں کا فکری سفر ایک نئ شعوری سیڑھی پر قدم رکھ رہا ہے، سوشل میڈیا کا یہ ابلاغیاتی نگر پشتون معاشرے کیلئے کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں، جو ہماری اظہار رائے کا امین ہے، جو ہمارے دربدر معاشرے کا ترجمان ہے، جس سے ہم ناقابل یقین حد تک فوائد لے رہے ہیں اور لے سکتے ہیں۔ لہذا آئیے ہم سب مل کرعہد کریں کہ ہم فیس بک کے اس نظریاتی شہر میں اپنے منفی رویوں پر قابو پائینگے، اپنی ذاتی چپقلشوں، علاقائی خامیوں، طعنوں اور تنگ نظریوں کا کیچڑ ایک دوسرے پر نہیں اچھالینگے۔اثبات کو فروغ دینگے، مثبت لوگوں کو تلاش کر ان سے معماران نظریات کا کام لینگے، متشدد رویوں کو محبت پر قائل کرینگے، اختلاف کو اتفاق میں بدلینگے، ارتقاء کا ساتھ دینگے کہ ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ خداوند تعالی اس نئے سال کو خوشیوں اور امن کے رنگوں کا قوس قزح بنائے۔ آمین۔
___________
(عبدالمجید داوڑ)

شوکت عزیز نے کیا بڑا علان مخالفین پریشان

فاٹا سٹوڈنس ارگنائزیشن کے صدر شوکت عزیز  نے فاٹا حقوق کے ،اور مطالبات منوانے اور ایف سی آر کے مکمل م خاتمہ بڑے ریلی کے لئیے کال دی ہے اور رضاکاروں کو تیار رہنے کی ہدایت ،جس  کی وجہ سے تمام ایف سی آر سپورٹر پریشان ہیں
   جاری ہے

Friday, December 30, 2016

FCR اور رواج عبدالمجید داووڑ سے

۔FCR اور رواج کا ڈھکوسلہ:
=================
جب بھی فاٹا کی انتظامی حیثیت کے تعین کا مرحلہ آتا ہے تو فاٹا کی جعلی قیادت، مخصوص فرمائشی قلمکار اور مفاداتی ٹولہ سب مل کر مختلف اطراف سے دو طرح کا ڈھول پیٹنا شروع کردیتے ہیں اول یہ کہ "ایف سی آر میں ہمارے رواج اور جرگے کا تحفظ ہے، اس کے خاتمے کا مقصد، ہماری ثقافت، رواج اور جرگے کاخاتمہ ہے"،  دوئم عدالتی نظام اور تھانہ کچہری کی چمڑی میں ہوا بھرکر آئین پاکستان سے عام قبائلی کو ڈرایا جاتا ہے نتیجتا عام قبائلی تذبذب کا شکار ہے اور جعلی قیادت خودساختہ ترجمان قبائل بن کرخوب مفادات بٹوررہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام مثالی نہیں رہا اور نہ ہے، تاہم FCR اور آئین پاکستان کے افتراق کا راز ثقافتی جڑوں میں پنہاں ہے،یہ حقیقت ریکارڈ پر رہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں ثقافتی جڑیں مضبوط ہیں وہاں تھانہ، کچہری اور عدالت سے عوام کا رجوع بلکل نہ ہونے کے برابر ہے، مثلاسندھی قبائل تالپور،سومرو،شیرلانی گبول،مجوکہ، پلیجو‘ زرداری‘ ابڑواور بھٹووغیرہ،بلوچ قبائل جکھرانی، بزنجو، بگٹی، رئیسانی،رند،کورائی،مری،مینگل‘ بادینی، جمالدینی،پرکانی،لہڑی،لغاری،محمد حسنی،کرد،نوتکانی یا نتکانی،چنگواني وغیرہ اور بلوچستان کے پشتون قبائل کاکڑ‘خلجی‘غوری‘اچکزئی، گلزائی، ترین،مندوخیل،شیرانی اور لیونی وغیرہ حتیٰ کہ سرائیکی قبائل یعنی آرائیں، احمدنی، میانہ، میو، چدھڑ وغیرہ تک اپنے فیصلے جرگوں کے ذریعے کرتے ہیں،بلوچ اور سندھی قبائل کے جرگوں کی ثقافتی جڑوں، انکی Implementation کا تفصیلی ذکرمصنف ڈیمز کی کتاب “دی بلوچ ریس” اور مصنف گینکووسکی کتاب “پیپل آف پاکستان” میں درج ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے جرگے اپنے رواج کے عین مطابق بعینہی فاٹا کے جرگوں کی طرح کام کرتے ہیں،مذکورہ صوبوں میں جرگوں کی مضبوطی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری ریسٹ ہاؤسوں میں باوجود سپریم کورٹ کی طرف سے پابندی کے متواتر جرگے جاری رہتے ہیں، جن میں متحارب قبیلوں کے وہ افراد جنہوں نے درجنوں قتل کئے ہوتے ہیں مونچھیں مروڑتے ہوئے شریک ہوتے ہیں، قتل کے عوض قتل اور لاکھوں کروڑوں روپوں کے جرمانے مقرر کئے جاتے ہیں، فیصلہ کنندگان وڈیروں اور سرداروں اور اوطاقوں کے خرچ کی بھاری رقوم بخوشی دی جاتی ہیں، پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسر (آئین پاکستان کے لاگو کنندہ ذمہ دار افسران ہونے کے باوجود) علاقائی ثقافت کی مضبوطی کی بناء پر نہ صرف بطور جرگہ ممبر شریک ہوتے ہیں، بلکہ جرگہ کے فیصلوں کا احترام، توثیق اور لاگو کرنے کیلئے علاقائی سرپنچوں اور مشران کی مدد کرتے ہیں۔ یعنی جرگے کا تحفظ ایک مضبوط ریاستی ادارہ "پولیس" کرتی ہے۔ یہی حال چترال اور گلگت بلتستان کا ہے، جہاں مختلف اقوام حتی کہ مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ،یعنی خوشے،کالاش،رئیسے،بایکے،ڈنزے،حاتم بیگے،رضے،دشمنے وغیرہ،تاہم انکے فیصلے آج بھی جرگوں کے ذریعے ہورہے ہیں، وجہ صرف اور صرف ثقافتی جڑوں کی مضبوطی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کے دیگرعلاقوں میں رواج اور آئین پاکستان اکھٹے چل سکتے ہیں، تو فاٹا میں کیوں نہیں؟
 کیا بندوبستی علاقوں کے کاکڑ‘خلجی‘غوری‘اچکزئی، گلزائی، ترین،مندوخیل اور شیرانی قبائل کا رواج فاٹا کے پشتونوں سے مختلف ہے؟
(عبدالمجید داوڑ)

صحیح جواب دینے والے کو دو سو کا ایزی لوڈ

اپ ایک جنگل سے گزر رہے ہیں ایک دو راہا آجاتا ہے ایک راستہ گاوں کیطرف جاتا ہے ایک دلدل کی طرف جاتا ہے دونوں راستوں پر ایک ایک آدمی کھڑا ہے ایک ہمشہ سچ دوسرا ہمشہ جھوٹ بولتا ہے۔آپ نہیں جانتے کہ کون سچ اور کون جھوٹ بولتا ہے ۔
اپ کس طرح سوال پوچھینگے کہ اپ گاوں پہنچ سکے ۔

Orakzai: نیند اور خواب کیا ہیں

Orakzai: نیند اور خواب کیا ہیں: نیند اور خواب کیا ہیں!! تقریبا نیند کے ڈیڑھ گھنٹے بعد یعنی آر آئی ایم نیند کے مرحلے میں خوب آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس دوران برقی لہریں جو بری...

نیند اور خواب کیا ہیں

نیند اور خواب کیا ہیں!!

تقریبا نیند کے ڈیڑھ گھنٹے بعد یعنی آر آئی ایم نیند کے مرحلے میں خوب آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس دوران برقی لہریں جو برین سٹم میں پیدا ہوتی ہیں اور یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے جڑا ہوتا ہے۔ ان بے قاعدہ، منتشر برقی لہروں کے نتیجے میں، کیمیاوی مادوں کا ایک سیلاب دماغ کے سامنے والے حصے میں جمع ہو جاتا ہے اس حصے کو فرنٹل لوب کہتے ہیں۔ گرے میٹر یا دماغ کا خاکستری حصہ ان برقی جھٹکوں اور کیمیائی مادوں کے اجتماع سے ترتیب تلاش کرتا ہے۔ اس دوران انسان بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ اور اپنے دماغ کے سامنے ہونے والے واقعات کو دیکھ رہا ہوتا ہے اس عمل کو خواب کہتے ہیں۔ اس طرح صبح جاگنے تک، ہم تین چار مرتبہ مزید اس عمل سے گزرتے ہیں مگر جاگنے کے بعد، شعوری حافظہ، ان خوابوں کی تفصیل بھول چکا ہوتا ہے۔ خواب کی یہ تصویریں، بقول ماہرین نفسیات، اجتماعی لاشعور میں چلی جاتی ہیں۔

 1953 میں پہلی دفعہ سائنس نے دماغ کی اُس کیفیت کا پتہ چلا یا جس میں خواب واقع ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق، خواب دیکھنے کے عمل کے دوران؛

٭1 آنکھ کی پتلی تیزی سے حرکت کرتی ہیں
٭2 سانس اور دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی پیدا ہوجاتی ہے
٭3 ہاتھ پاؤں بلکہ سارا جسم شل ہوجاتا اس حالت کو ہی آر آئی ایم نیند کہتے ہیں۔

خواب انسان کے دماغی حصے برین سٹیم میں ہی بنتے ہیں یہ حصہ دل کی دھڑکن، معدہ کی حرکت اور پیشاب بننے کے عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور یہ اعصابی نظام خود کاری ہے یعنی بغیر ارادے کہ اپنا کام سرانجام دیتا رہتا ہے۔ اور اسی کو آٹونومک نروس سسٹم بھی کہتے ہیں اس میں دو اہم قسم کے نیورانز ہوتے ہیں جو نیند کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان میں مختلف قسم کے کیمیائی مادے بنتے ہیں۔

ایک قسم کے نیورانز ایسی ٹائل کولین کیمیائی مادہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ نیورانز آر ای ایم نیند کے دوران آن ہوتے ہیں۔ دوسری طرح کے نیورانز ایپی نیفرین مادہ پیدا کرتے ہیں اور آر آئی ایم نیند کے دوران آف ہوتے ہیں۔ یعنی نیند کے دوران ایسی ٹائل کولین والے نیورانز اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اس کا اندازہ اس طرح لگایا گیا کہ جن بلیوں میں ایسی ٹائل کولین انجیکٹ کی گئی ان میں آر ائی ایم نیند شروع ہو گئی اور جو مریض ایسی ٹائل کولین کی کمی کرنے والی ادویات کھا رہے تھے ان میں خواب آنا بند ہو گئے۔

ایسی ٹائل کولین والے نیورانز جلدی جلدی پیغام دماغ کے سب سے بڑھے حصے کارٹکس یا قشر کو بھیجتا ہے۔ کارٹکس ان پیغامات کو با معنی شکل دے دیتا ہے۔ اور اس عمل کے لیے کارٹکس پہلے سے موجود یاداشت سے مدد لیتا ہے۔ اور پیغامات کو کس طرح کے معنی ملتے ہیں یہ خواب دیکھنے والے کے خوف، خواہش، تجسس اور ذہنی حالت پر منحصر ہوتا ہے۔ کسی چیز سے خوف زدہ شخص با ر بار اسی کے متعلق خواب دیکھتا ہے اور مستقبل کے بارے پریشان شخص کچھ نا کچھ ماضی اور حال کی یاداشت کو ملا کر پیش بینی کو خواب کی صورت دیکھتا ہے۔ اور کارٹکس کا تعلق غور و فکر، تخلیقی کام نئی بات سوچنے کی صلاحیت کے علاوہ وہ تمام کام جو ہم اپنے ارادے سے کرتے ہیں۔ عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ خواب کسی اشارے اور، تصویر اور پیغام کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔ خواب میں تصویریں بڑی واضح ہوتی ہیں کیونکہ دماغ، تسلسل سے کام کرتا ہے اور اعلیٰ درجہ کا تسلسل غیر لفظی اور علامتی ہوتا ہے جو بہت سارے مواد کو ایک مختصر تصویری شکل دے دیتا ہے۔ اسی علامتی طریقہ کار سے حافظہ کے کام کرنے کا سراغ بھی لگایا گیا ہے کہ ہم اپنے حافظہ کو جذباتی مواد یا واقعات کی شکل و صورت یا کسی اور خاص وجہ سے بھی محفوظ یا ترتیب دیتے ہیں۔

 آر ای ایم نیند کے دوران بہت سارے نیورانز ایسے ہوتے ہیں جو خواب دیکھنے کے عمل میں حصہ نہیں لیتے ان نیوانز کا تعلق اپنی ذات کے ہونے کا احساس اور توجہ سے ہوتا ہے اس سے انا اور ارادہ معطل ہو چکا ہوتا ہے اور اس لیے ماضی کی یاداشت کام کر رہی ہوتی ہے اور آسانی سے دماغ پرانے واقعات کو پیغام کی شکل بھیج رہا ہوتا ہے۔ اور جب بھی حوش آتا ہے تو تمام خواب بھول جاتے ہیں اس کی سب سے اہم وجہ ان نیورانز کا خواب میں حصہ لینا نہیں ہے جو کہ ایپی نیفرین جیسے کیمیائی مادے خارج کرتے ہیں اور لمبے دورانیے کی یاداشت کی وجہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواب میں سننے، دیکھنے اور بولنے کی حسیں تو کام کر رہی ہوتی ہیں لیکن ذائقہ اور سونگھنے کی حس نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خواب عجیب و غریب اس لیے ہوتے ہیں کہ برین سٹیم سے آنے والی برقی لہریں متغیر ہوتی ہیں جو مختلف قسم کے اشارے، تصویر ایک ہی وقت میں نمودار کر رہیں ہوتیں ہیں۔

اسی طرح ایک تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ طالب علموں کو آواز سے آزاد کمرے میں سونے کو کہا گیا اور ان کے دماغ کی برقی لہریں چیک کیں گئیں جس سے یہ پتا چلا کہ چار قسم کی لہریں انسانی دماغ میں آر ای آیم نیند کے دوران پیدا ہو رہیں تھیں۔ یہ برقی لہریں ڈیلٹا، تھیٹا، الفاء، بیٹا شامل ہیں جن میں ہرایک کی ارتعاش اور برقی طاقت مختلف تھی۔

خوابوں سے بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی کیفیت کا اندازہ بھی ہوا ہے۔ دل کے جن مریضوں نے خواب میں موت، قبرستان اور اس قسم کے سین دیکھے تو اُن میں ہارٹ اٹیک کی شدت دوسرے مریضوں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ فالج زدہ لوگوں کے خواب زیادہ تر تشدد اور مار پیٹ کے مناظر پر مشتمل تھے جوکہ نہایت حیرت کی بات تھی کیونکہ عام طور پر یہ لوگ پرسکون اور خوش باش نظر آتے تھے۔

خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بہت ساری فلسفیانہ، سائنسی اور نفسیاتی نظریات پیش کیے گئے ہیں۔

خواب کی اہم قسموں میں
٭1:دن میں کواب دیکھنا
٭2: خوابِ ساطِع
٭3: ڈراؤنے خواب
٭4: بار بار آنے والے خواب
٭5:شفایابی والے خواب
٭6:سچے خواب٭
7: شہوت والے خواب
٭8: ترقی کرنے والے خواب
٭9: باہمی ایک جیسے خواب
٭10: اشارہ

 ان تمام قسموں میں سے کسی نا کسی سے تمام انسانوں کا واسطہ پڑتا ہے مگر اہم نقطہ یہ ہے کہ سچے خواب کیا ہوتے ہیں۔

 سچے خواب بنیادی طور پر دماغ کی طرف سے ایک راہنمائی ہوتی ہے کسی انسان کے لیے اور اگر خواب سچ ثابت ہو جائے تو ہمیں اس کے سچے ہونے کا احساس ہو تا ہے ورنہ رات میں بہت سارے خواب ماضی حال اور مسقبل کا تجزیہ کر کے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور کچھ ایسے خواب جو آپ کی سوچ کے عین مطابق ہوتے ہیں آپ خود ہی دماغی طور پر ان کے سچا ہونے پر امادہ ہو کر اس کو سچا ثابت کرنے کے لیے سوچتے یا کوئی اقدام کرتے ہیں۔

 اس کے علاوہ دماغ میں مبینہ عمل ہونے کے پیش نظر خود اپنے خوابوں کو ترتیب دینے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا شعوری دماغ اتنی تیزی سے معلومات کا تجزیہ نہیں کر سکتا جیتنا سب خوابی دماغ کرتا ہے۔ اور دماغ پہلے سے اکھٹی کی ہوئی معلومات کو جمع کر کے ملا کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے عموماً خواب کے عالم میں دماغ کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے جو فورکاسٹ کا کام بھی سرانجام دے سکتا ہے۔

 ایسی چند خوابوں میں ابراہم لنکن کی خواب جس میں اس نے اپنے آپ کو قتل سے ایک ہفتہ قبل کفن میں لپٹا دیکھا اور اسی طرح جان ڈونی نے خواب دیکھا کہ فرانس میں آتش فشاں پھٹنے والا ہے اور ایسے ہی ہوا۔

 ٭٭سچے خوابوں کی قسمیں:

سایہ پر مبنی خواب: یہ وہ خواب ہیں جن میں کوئی مردہ خواب میں آ کر کوئی معلومات دیتا ہے جو آپ سے وابستہ ہوتی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آپ کی سوچ میں چلنے والے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔

 الہامی خواب جو نبوت یا ولائت کا دعویٰ کرنے والوں کو آتے ہیں۔ یہ بھی کسی بارے مین بہت سوچنا یہاں تک کہ یاداشت میں وہ غلبہ پر کر خواب میں نمودار ہو جائے۔

غیب کے خواب: ایسے خواب جو اصل وقت میں باہر بھی رونما ہوں اور آپ کو نظر آ رہے ہوں۔ یہ ماحول کی طرف سے خواب میں پیدا ہوے والی برقی لہروں کا متاثر کرنے سے ہوتا ہے۔

اسی طرح کسی پیش گوئی پر مبنی مطلع کرنے والے خواب شامل ہیں۔

 خوابوں کی اتنی لمبی تفصیل سے یہ بات ثابت نہیں ہو جاتی کہ یہ ختمی نظریا ت ہیں ابھی خوابوں پر بہت ساری تحقیق ہونا ضروری ہے جس سے انسانی دماغ کے بہت سارے رموز آشکار ہو سکتے ہیں۔ بہت سارے دوسرے عوامل کی طرح خواب بھی مادے کا کیمیائی تعامل کا بہترین رنگ ہے۔

کائینات یا متعدد کائیناتیں

(Multiverse)

متعدد کائناتیں یا Multiverse (ابھی تک) تصوراتی متعدد کائناتیں ہیں جن میں ہماری کائنات بھی شامل ہے جو باہم مل کر سارے وجود کو تشکیل دیتے ہیں، متعدد کائناتیں بعض علمی نظریات کا نتیجہ ہیں جن میں بالآخر ان متعدد کائناتوں کا وجود لازمی قرار پاتا ہے، یہ نتیجہ علم کونیات میں کوانٹم نظریہ میں بنیادی ریاضی کو واضح کرنے کی کوششوں کے نتیجہ میں سامنا آتا ہے، متعدد کائناتوں میں مختلف کائناتوں کو بعض اوقات متوازی کائناتیں بھی کہا جاتا ہے اور ہر کائنات کی اندرونی ساخت اور ان کائناتوں کے آپس میں تعلق کا انحصار مختلف نظریات پر ہے، متعدد کائناتوں کا قیاس کونیات، طبیعات، فلک، فلسفہ، لاہوت اور سائنس فکشن میں بھی ملتا ہے، اس سیاق میں متوازی کائناتوں کو مختلف ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے جیسے متبادل کائناتیں، کوانٹم کائناتیں، متوازی دنیائیں، متبادل حقیقتیں وغیرہ.
ہمارے ٹیلی سکوپ 14 ارب نوری سال تک دیکھنے کے قابل ہیں.. مگر اس کے آگے کیا ہے؟ علماء کے نتائج کے مطابق ہم جانتے ہیں کہ کائنات ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آئی.. مگر اس سے پہلے کیا تھا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب مختلف زمانوں میں فلسفیوں، مذہبیوں اور مفکروں نے دینے کی کوشش کی ہے کہ جو کائنات ہمیں نظر آتی ہے اس کے آگے کیا ہوسکتا ہے؟ کائنات کیسے اور کہاں سے آئی؟ علماء (یعنی سائنسدان مولوی نہیں!!) کا خیال ہے کہ ماضی قریب میں رائج تمام نظریات کے مقابلے میں آج ہم اس حوالے سے منطقی اور متوازن جوابات دینے کے قابل ہیں کہ 13.7 ارب سال پہلے عظیم دھماکے سے کائنات کی پیدائش سے قبل کیا تھا؟ اور اس کی جانی پہچانی حدود کے ماوراء کیا ہے؟
1954ء میں پرنسٹن یونیورسٹی میں کے طالب علم Hugh Everett نے ایک بنیادی خیال پیش کیا کہ ہماری کائنات سے مشابہ متوازی کائناتیں موجود ہوسکتی ہیں اور ان ساری کائناتوں کا ہماری کائنات سے تعلق ہوسکتا ہے، وہ ہماری شاخ ہوسکتی ہیں جبکہ ہم دیگر کائناتوں کی شاخ ہوسکتے ہیں، ان متوازی کائناتوں میں ہماری جنگوں کا انجام اس سے قطعی مختلف ہوسکتا ہے جس سے ہم واقف ہیں.. بہت ممکن ہے کہ ہماری کائنات کے ناپید انواع دوسری کائناتوں میں پھل پھول کر ترقی کر گئی ہوں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری کائناتوں میں ہم انسان ناپید ہوچکے ہوں..!!
یہ حیران کن حد تک سائنس فکشن سا لگتا ہے جس میں شاید کئی مرتبہ متعدد اور متوازی کائناتوں اور ابعاد کا خیال پیش کیا جاچکا ہے، مگر ایک نوجوان طبیعات دان جس کے سامنے سارے زندگی پڑی ہو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس قسم کے نظریات پیش کر کے اپنا مستقبل خطرے میں ڈالے؟ دراصل اپنے متعدد کائناتی نظریے سے ہیو ایوریٹ کوانٹم طبیعات سے متعلق ایک مشکل سوال کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا، کوانٹم اجسام غیر مستقر انداز میں کیوں پیش آتے ہیں؟ کوانٹم درجہ اب تک دریافت ہونے والا ادنی تر درجہ ہے، کوانٹم طبیعات کی ابتداء اس وقت ہوئی جب 1900ء میں میکس پلانک نے یہ مفہوم پہلی مرتبہ علمی برادری میں پیش کیا، شعاعوں سے متعلق پلانک کی تحقیق ایسی دریافتوں پر منتج ہوئی جو روایتی طبیعات کے قوانین سے متصادم تھی، ان دریافتوں نے اس کائنات میں روایتی قوانین سے قطعی مختلف قوانین کے وجود کی طرف اشارہ کیا جو انتہائی گہرائی میں کام کرتے ہیں.
کوانٹم درجہ پر تحقیق کرنے پر طبیعات دانوں نے دنیا کے حوالے سے عجیب امور اخذ کئے، اس درجہ پر موجود اجزاء اتفاقی طور پر مختلف صورتوں کے حامل تھے، مثال کے طور پر علماء نے دیکھا کہ فوٹون (روشنی کے پیکٹ) ذرے اور لہر دونوں طرح سے پیش آرہے ہیں! ذرا سوچئے کہ آپ اپنے کسی دوست کے سامنے اچھے بھلے انسانی شکل میں کھڑے ہیں مگر آپ کا دوست جب دوسری طرف منہ پھیر کر دوبارہ آپ کی طرف دیکھتا ہے تو آپ گیس بن چکے ہوتے ہیں!!
ایک اہم بات جو علماء نے نوٹ کی ہے یہ ہے کہ الیکٹرون کا کوئی معینہ مقام نہیں ہے، ذرے پر تحقیق سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ ذرہ ایک سے زائد مقامات پر ایک ہی وقت میں موجود ہوتا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اربوں کے حساب سے متوازی کائناتیں وجود رکھتی ہیں چنانچہ جب ذرہ دوسرے مقام پر نظر آرہا ہوتا ہے تو اس وقت دوسری کائناتوں کے ذرے ہماری کائنات میں ایک نہ سمجھ آنے والے تعلق کے ذریعے ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں.
ایک اور مثال تاریک مادے کی ہے جو نظر نہیں آتا مگر اس کے تجاذب سے اسے پہچانا جاتا ہے اور جو کائنات کا نوے فیصد حصہ ہے، ممکنہ طور پر یہ تاریک مادہ متوازی کائناتوں میں بھی موجود ہے جو تجاذب کے اثر سے ہماری کائنات پر اثر انداز ہو رہا ہے، سٹرنگ نظریہ کے مطابق یہ تاریک مادہ متوازی کائناتوں کے درمیان منتقل ہوسکتا ہے.
درحقیقت کئی راستے ہمیں متعدد کائناتوں تک لے جاتیں ہیں، صرف سٹرنگ نظریہ ہی نہیں، بلکہ ذرے کا سلوک بھی جو ایک وقت میں کئی مقامات پر ہوسکتا ہے.
ان دو راستوں کے علاوہ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کائناتی مستقل ایک معینہ عدد پر ہی کیوں رک گئے ہیں جیسے کشش، گیسوں کے عمومی قوانین اور دیگر، ہوسکتا ہے کہ یہ مستقل دوسری دنیاؤں میں مختلف قدریں رکھتے ہوں، مثلاً لا متناہی ہوں ؟!
سٹرنگ نظریہ کے بانی میشیو کاکو (Michio Kaku) کہتے ہیں جب ہم ایک کائنات کے وجود کی اجازت دیتے ہیں تو ساتھ ہی ممکنہ دوسری لامتناہی کائناتوں کے لئے بھی امکانات کے دروازے کھول دیتے ہیں، جہاں تک کوانٹم میکینکس کی بات ہے الیکٹرون کسی معینہ مقام پر نہیں ہوتا بلکہ مرکزے کے گرد تمام ممکنہ مقامات پر ہوتا ہے، مگر کائنات الیکٹرون سے بھی چھوٹی تھی (عظیم دھماکے یا بگ بینگ کے وقت) اور اگر ہم کوانٹم میکینکس کو تمام کائنات پر لاگو کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کائنات تمام متعدد مختلف اور ممکنہ حالتوں میں بیک وقت موجود ہوگی، اور یہ مختلف اور ممکنہ حالتیں ہی دراصل متعدد کائناتیں ہیں..
یہاں کاکو کا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ متعدد کائناتوں کو تسلیم کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں، یہ کائناتیں ہماری دنیا کی مختلف کہکشائیں نہیں ہیں بلکہ کہکشائیں تو دراصل اس دنیا کا حصہ ہیں، ممکنہ کائناتیں ہماری دنیا سے مشابہ یا مختلف ہوسکتی ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ ممکنہ کائناتوں کے طبیعاتی قوانین دوسری ممکنہ کائناتوں جیسے ہماری کائنات سے مختلف ہوں.
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ راجر پن روز اور سٹیفن ہاکنگ کا بھی یہی خیال ہے کہ کوانٹم نظریہ کو کائنات پر لاگو کرنے کا نتیجہ متعدد کائناتیں ہی ہوگا.
ممکنہ طور پر ان متعدد کائناتوں میں سے کچھ کائناتیں اس مرحلہ سے بھی گزری ہوں گی جس میں زندگی کو پروان چڑھنے کا موقع ملا ہوگا، اور جب بھی کسی کائنات سے کوئی کائنات پیدا ہوتی ہے طبیعاتی قوانین تھوڑے سے بدل جاتے ہیں.. اس طرح ایسی کائناتیں بھی پیدا ہوسکتی ہیں جن میں طبیعاتی قوانین عکسی ہوں چنانچہ ان کا انجام فناء ہوگا یعنی وہ فوراً ہی اپنے آپ میں ڈھیر ہوجائیں گی، ایسی کائناتوں کے تشکیل پانے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا جن میں غلط ابعاد ہوں، یا ان کے طبیعاتی قوانین سیاہ شگافوں کے بننے میں مانع ہوں جن سے کوئی کائنات اپنی نوع کی حفاظت کرتی ہے.. یقیناً کچھ کائناتوں کے طبیعاتی قوانین درست ہوسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان میں ستارے اور سیاہ شگاف تشکیل پاسکتے ہوں گے.
علماء نے ایک ایسا خالی علاقہ دریافت کیا ہے جس کا رقبہ اب تک دریافت ہونے والے تمام خالی علاقوں سے زیادہ ہے، یہ خالی علاقہ ہم سے تقریباً 8 ارب نوری سال دوری پر واقع ہے اور اس کا قطر ایک ارب نوری سال سے تو کسی طرح کم قرار نہیں دیا گیا، یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ علماء نے کائنات میں کوئی خالی علاقہ دریافت کیا ہے، ہم اب تک 30 ایسے ضخیم علاقوں کے بارے میں جانتے ہیں جن کا رقبہ کئی ملین نوری سالوں پر محیط ہے، مگر حال ہی میں دریافت ہونے والا یہ خالی علاقہ نظر آنے والی کائنات سے بھی کہیں بڑا ہے، اتنا بڑا کہ عظیم دھماکے کو ماننے والے علماء کو اس کی توجیہ بیان کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے..!!
مگر بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ اس کی مناسب توجیہ بیان کر سکتے ہیں اگرچہ یہ حیران کن ہے، ان علماء کے مطابق یہ علاقہ ایک دوسری کائنات کا نشان ہے جو ہماری کائنات کی دیوار کو دبائے ہوئے ہے، کچھ تحقیق کار جن میں ساؤٹھ کیرولینا یونیورسٹی کی لورا (Laura Mersini-Houghton) بھی شامل ہیں کہتی ہیں: ” روایتی علمِ کونیات اس جیسے ضخیم خلاء کی توجیہ بیان نہیں کر سکتا ”.
علماء کا خیال ہے کہ یہ خالی علاقہ ہماری کائنات کے بننے کے انتہائی ابتدائے دور میں اس کی پڑوسی کائنات سے ٹکرانے کے نتیجہ میں تشکیل پایا ہے، جب ہماری پڑوسی کائنات ہماری کائنات کے اس حصہ سے ٹکرائی تو اس نے سارے مادے کو اس علاقہ سے ادھر ادھر دھکیل دیا اور اس طرح وہ علاقہ خالی ہوگیا یا اس میں انتہائی کم کائناتی اجسام رہ گئے.. اگر یہ درست ہوا تو پہلے سے دستیاب متعدد کائناتوں کے نظریاتی ماڈلوں سے مشابہ یہ پہلا تجرباتی ثبوت ہوگا ساتھ ہی یہ سٹرنگ نظریہ کی بھی دلیل ثابت ہوسکتا ہے، کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر متعدد کائناتی نظریہ درست ہے تو ایسا ہی ایک مشابہ خلاء شمالی کرہ ارض کے آسمانی علاقہ میں ہونا چاہئے.
72 مشہور طبیعات دانوں کے درمیان کرائی گئی ایک رائے شماری کے مطابق 60% علماء کا خیال ہے کہ متوازی کائنات کا نظریہ درست ہے، اس رائے شماری کے نتائج فرانس کے Sciences et Avenir میگزین میں جنوری 1998ء میں شائع کئے گئے تھے.

Thursday, December 29, 2016

فاٹا کا مستقبل تاریک کس وجہ ہے

فاٹا میں یوتھ پالیسی کیوں نہیں؟
رفعت اللہ اورکزئئ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
29 دسمبر 2016
پاکستان کو قائم ہوئے تقریباً ستر سال ہوگئے ہیں لیکن وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں نوجوانوں کےلیے ابھی تک کسی قسم کی یوتھ پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
فاٹا سمیت ملک کی بیشتر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تاہم یونیورسٹیز اور کالجوں میں زیرتعلیم طلبہ کو کئی دہائیوں سے ہر شعبہ زندگی میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
اس ضمن میں خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں خواتین اور نوجوانوں کی حقوق کےلیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم اوئیر گرل یعنی باشعور خواتین کی طرف سے ایک سیمنار کا اہتمام کیا گیا جس میں قبائلی علاقوں کے نوجوانوں، اراکین پارلمینٹ اور سیاسی رہنماؤں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اس موقع پر بی بی سی فیس بک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے اوئیر گرل کی چئیرپرسن گلالائی اسمعیل نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں جو پالیسیاں بنتی ہیں اور جو فیصلے کئے جاتے ہیں ان میں نوجوانوں کو شامل نہیں کیا جاتا حالانکہ ان علاقوں کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی نوجوانوں کو فاٹا میں جنگ کے ایندھن کے طورپر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے وہاں جان بوجھ کر ایف سی آر جیسے کالے قوانین بنائے گئے تاکہ وہاں خلاء کو پیدا کیا جائے اور معصوم طلبہ کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کیا جاسکے۔
ان کے مطابق ماضی میں ایسی پالیسیاں مرتب کی گئی جس کی وجہ سے نوجوانوں کو مجبوراً شدت پسند تنظیموں کا حصہ بنایا گیا اور ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ خود اپنے مستبقل کا فیصلہ کرسکے۔
فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن خواتین ونگ کی صدر سمرین خان وزیر نے کہا کہ فاٹا میں نوجوانوں کےلیے یوتھ پالیسی بنانا حکومت کی ترجیح ہی نہیں تو کیسے پالیسی بنی گی اور یوتھ کی حالت کیسے بہتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سابق گورنر خیبر پختونخوا بیرسٹر مسعود کوثر نے اپنے دور کے آخری دنوں میں یوتھ پالیسی بنانے کی منظوری دی تھی لیکن اس پر بھی ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نوجوانوں کی حالت بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں
اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون نوشین فاطمہ نے کہا کہ چند دن پہلے ایک پرورگرام میں فاٹا کے ایک نوجوان نے قبائلی علاقوں میں رائج ' کالا قانون' ایف سی آر کے خلاف صرف ایک نعرہ بلند کیا تھا لیکن اسکی پاداشت میں اسے ایک ہفتہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں اگر فاٹا کے نوجوانوں کو احتجاج کا حق حاصل نہیں تو وہاں یوتھ کےلیے پالیسی بنانے میں کون سنجیدہ ہوگا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے حکومت مزید فاٹا کے عوام اور نوجوانوں کو محکم نہیں رکھ سکتی۔۔
ان کے مطابق فاٹا میں یوتھ پالیسی اس صورت میں بنی گی جب حکومت تھوڑی سی سنجیدگی دکھائے اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر ان کواس عمل کا حصہ بنائے۔

فاٹا یوتھ امن پالیسی

آج پی سی ہوٹل پشاور میں اوئیر گرلز کے زیر اہتمام فاٹا یوتھ آمن پالیسی(FATA Youth Peace Policy ) کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا ،
سیمینار میں مختلف شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ شریک تھے ،
فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر شوکت عزیز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کی جائے .
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نوجوانوں کو محفوظ کیا جائے ،یعنی انکوں اس جنگ سے متاثر نہ ہونے دے .
بریت کو ختم کی جائے ،اور تحقیقات کی جائے ،اوران لوگوں کا احتساب کیا جائے جو عام لوگوں خاص کر نوجوانوں کے خلاف جنگی جرموں میں مبتلا ہیں
فاٹا کے نوجوانوں خواہ وہ لڑکے ہیں یا لڑکیاں ان کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات کی جائے ،مثلاً
انصاف تک رسائی کا حق دی جاۓ
سیاسی نظام کا حصہ ہونے کا حق دیا جائے.
فاٹا میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والوں اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے،مستقل امن کیلئے فاٹا کے نوجوانوں کو معیاری تعلیم دی جائے ،انہوں نے کہا کہ کہ نصاب میں طلباء کیلئے خصوصی امن کےاسباق شامل کی جائے ،مزید کہا کہ طلباء کیسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے فاٹا کے نوجوان کے توانائیاں ضائع کی جا رہی ہے ،انہوں نے پالیسی بنانے والوں پر زور دیا کہ فاٹا کے عوام کیلئے پالیسی بناتے وقت وہاں کی نوجوانوں کی رائے لی جائے ،

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن خواتین وینگ کے جنرل سیکرٹری ثمرینہ خان وزیر اور نوشین اورکزئی نے کہا کہ فاٹا کے بچیوں کو مزید تاریکیوں میں نہ رکھا جائے ،حکومت انکی حقوق کے تحفظ کیلئے موثر اقدامات کرے، انہوں نے کہا کہ کیسی معاشرے کے ترقی میں خواتین کے کردار کو نظر انداز کرنا سمجھ سے بالاتر ہیں ،انہوں نے کہا کہ ہم فاٹا کی عوام کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں ،ثمرین خان وزیر نے مطالبہ کیا کہ انکے لئے قومی و صوبائی اسمبلی سینٹ  میں مخصوص نشستیں مختص کی جائے ،اور فاٹا میں ہونے والے اصلاحات میں ان کی رائے شامل کی جائے ،
فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اووئیر گرل کے چیئرپرسن گلالئ اسماعیل کا شکریہ ادا کیا اور فاٹا کی عوام اور نوجوانوں کیلئے اس کی جدوجہد اور خدمات کو سراہا ،انہوں نے کہا کہ فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن قبائلی عوام کیلئے ہر فلیٹ فارم پر اواز بلند کرے گی.

Orakzai: لسانیات کیا ہے اور آنے والے وقتوں میں انکو کیا خطر...

Orakzai: لسانیات کیا ہے اور آنے والے وقتوں میں انکو کیا خطر...: لسانیات کیا ہے؟ زبان کے علم کو لسانیات کہتے ہیں اس میں زبانوں کی آپس میں مشابہت، زبان کی ابتدا  اور زبانوں کا آپس میں کیا تعلق ہے اس کا م...

Orakzai: ہمارے مسائل (سپایہ لوئر اوکزئ ایجنسی)

Orakzai: ہمارے مسائل (سپایہ لوئر اوکزئ ایجنسی): #ہمارے_مسائل مچھر کی بات ہاتھی کے کان میں  :-                 اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خطہ اورکزئ میں ایک ایسی قوم بھی ہے...

لسانیات کیا ہے اور آنے والے وقتوں میں انکو کیا خطرات لاحق ہیں

لسانیات کیا ہے؟

زبان کے علم کو لسانیات کہتے ہیں اس میں زبانوں کی آپس میں مشابہت، زبان کی ابتدا  اور زبانوں کا آپس میں کیا تعلق ہے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ لسان یاں زبان ایسا عمل ہےجس کے ذریعے مختلف آوازوں، اشاروں کی مدد سے ایک دوسرے تک معلومات کی ترسیل کی جاتی ہے۔
دنیا پہ بسنے والے جانداروں میں سے انسان واحد جاندار ہے جو اپنے احساسات کا اظہار بول کے کر سکتا ہے. لفظ ہمیں ہنساتے، رلاتے، غصہ دلاتے ہیں، لفظوں کے کهیل میں انسان کسی دوسرے انسان کو قابو کر سکتا ہے، کسی لفظ اور اس کے اچها یا برا ہونے کا معیار انسان کا اپنا مقرر کردہ ہوتا ہے، لفظوں کو ہم ہی مقدس یا ہتک آمیز قرار دیتے ہیں. ایک انسان الفاظ کے ذریعے اپنی سوچ کو دوسرے انسان تک منتقل کرتے ہوئے اس کے عمل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈهال سکتا ہے. اپنی اگلی نسل تک اپنے عملی تجربات اور معلومات کی منتقلی کا ایک اہم ذریعہ زبان بهی ہے.

ویزولئیزیشن کسی بھی چیز کی ذہن میں تصویر لانے کے عمل کو کہتے ہیں۔زبان کے لفظوں کا مقصد ان تصویروں کو دوسروں تک پہنچانا ہے لفظ بذات خود کچھ معنی نہیں رکھتے انسان ہی ان کو معنی دیتا ہے۔ ہر حرف، علامات کی ماند ہے اوران کے ملاپ سے لفظ بنتے ہیں۔ اور یہ زبان کا عمل صرف ان دماغی خیالات کو ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں.

اشاروں کی زبان میں انسان کے علاوہ چند دیگر جانور ڈولفن مچهلی، گوریلا، ایشیائی ہاتهی کوشک، چمپینزی، طوطا، وہیل مچهلی، ببونز بن مانس بهی اپنے جذبات کا اظہار اور معلومات بهیجنے کا کام کرتے ہیں, دنیا میں اس وقت تقریباً  6909 زبانیں بولی جاتی ہیں. انسان اپنے گلے، زبان، اور منہ کی بناوٹ سے 1100 فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے صوتی تهرتهراہٹ نکالتا ہے. صوتی تهرتهراہٹ کو ہم آواز کہتے ہیں. انسانی آواز کی فریکوئینسی 30 ہٹز سے لے کر 1100 ہٹز تک ہوتی ہے.
زبان کا استعمال ایک دوسرے تک معلومات کی روانی کے لیے ضروری ہے جس میں خاص لفظوں کا استمعال کیا جاتا ہے مگر کیا اپنی ذات سے بات کرنے کے لیے لفظوں اور زبان کا ویسا ہی استمعال ضروری ہے جیسا کہ دوسروں سے کیا جاتا ہے۔ اس امر میں اگر دیکھا جائے تو اپنی ذات سے بات کرنے کے لئے لفظوں کا استعمال بتدریج کم کر کے مشاہدہ کرنا چاہیے۔ اور ہو سکے تو اپنے آپ سے کبھی بھی لفظوں میں بات نہیں کرنی چاہیے۔

انگریزی جریدے ” زبان ” میں شائع ہونی والی ایک تحقیق کے مطابق ایموزون جنگلوں کے پراہا اور اموندوا قبائل میں اپنے جذبات کے اظہار کے لئے لفظوں کی قلت ہے. شمال مشرقی بهارت میں مارنگ قبیلے کے لوگ تعداد کی گنتی کے لئے صرف تین تک کے اعداد جانتے ہیں. الفاظ کی قلت میں پراہا اور اموندوا قبیلے کے لوگ مارنگ قبیلے جتنے الفاظ بهی نہیں جانتے ہیں.
پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی سے پروفیسر کرس سنہا نے ایمزون کے جنگلوں میں رہنے والے قبائل کی زبانوں کا مطالعہ کیا، شمال مغربی برازیل کے اموندوا قبیلے کے لوگوں کی زبان میں الفاظوں کا نہایت فقدان ہے وقت، ہفتہ، مہینہ اور سال کے لئے ان کے پاس کوئی لفظ نہیں ہے
اموندوا قبیلے کے لوگوں کے ساتھ ماہر لسانیات وینی سمپائیو اور اینتهروپولوجیسٹ ( انسانی نفسیات شناس ) ویرا سلوا سنہا نے آٹھ ہفتے گزارے اور اس بات کا مطالعہ کیا کہ وہ اپنی زبان میں ” اگلے ہفتے” یا ” پچهلے سال” وغیرہ کا اظہار اور ادائیگی کس طرح کرتے ہیں. مطالعہ کے بعد نتائج سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی زبان میں ایسے کوئی لفظ نہیں تهے. وہ صرف دن، رات، خشک اور برساتی موسم کے بارے میں جانتے ہیں، قبیلے کے لوگوں میں عمر کا کوئی تصور نہیں ہے.
یہ ایسے قبائل ہیں جن سے وقت گزرنے کے ساتھ شہر اور دیگر قصبہ و گاؤں سے تعلقات میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ وحشی قبائل اور ایسے قبائل جن کا جدید دنیا سے رابطہ بهی نہیں ہوا امکان ہے کہ ان میں جذبات کے اظہار اور بول چال کے الفاظ نہایت قلیل ہوں گے.

لفظوں کا استعمال دماغ کی سوچنے کی صلاحیت کو کمزور بنا دیتا ہے کیونکہ ذہن کے خیالات کو اگر پہلے لفظوں کا محتاج بنایا جائے تو وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اس لیے دماغ کا زیادہ سے زیادہ اور لفظوں کا کم سے کم استمعال کیا جانا چاہیے۔ اور ترسیل کے اس عمل کو تصویر کی صورت پر ہونا چاہیے۔ اس بات کی دلیل میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ہمارا دماغ تصویر کی طرح ہی سوچتا ہے اور اس کا کام ویزولئیزیشن ہے۔ اگر اپنے آپ سے بات کرنے کے دوران لفظوں کا استعمال کیا جائے تو ذہن کی سوچنے کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے۔

لفظ یا الفاظ خود کچھ نہیں ہوتے ، یہ ایک مخصوص صوتی تهرتهراہٹ ہوتی ہے جسے ہم انسان اشکال کی پہچان کے لئے وضع کرتے ہیں. اس لفظ کو بهی ایک نام یا پہچان انسان نے خود دیا جسے ہم لفظ کہتے ہیں. کسی بیل یا گائے کو نہیں معلوم کہ ہم اسے گائے کہتے ہیں.  انسان کو بهی انسان نے خود کہا کہ وہ انسان ہے. ان مخصوص صوتی تهرتهراہٹوں کو بهی ہم اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب ہمیں ان سے منسلک اشکال کا علم ہو، جیسے کسی اجنبی زبان کے الفاظ ہمیں اس لئے سمجهنے میں مشکل ہوتی ہے کیونکہ اس زبان کے الفاظ سے منسلک اشکال سے ہم لا علم ہوتے ہیں.

ایک اور مثال سے اس کی وضاحت کی جائے تو زمین کے گرد گهومتے ایک سیارچے کو صدیوں پہلے ہمارے آباء و اجداد کی طرف سےپہچان کے لئے نام  چاند، قمر، ہلال، چندرما یا Moon مختلف خطوں کی مختلف زبانوں میں پہچان کی غرض سے صوتی پہچان ایجاد کی گئی.
ہمارے نام بهی اردگرد موجود چیزوں اور پہچان سے جوڑے جاتے ہیں. اب اگر کسی کا نام قمر ہے تو لفظ قمر  زمین کے گرد گهومتے اس سیارچے کی پہچان کے لئے وضع کیا گیا لفظ ہے، پهر وہ شخص جسے قمر بلایا جاتا ہے اس کا اصل نام کیا ہے؟ اور یہ لفظ قمر درحقیقت ہے کیا؟
لفظ اور زبانیں بهی ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد ترقی و تنزلی کی جانب گامزن رہتی ہیں. مستقبل میں بہت سی ایسی زبانیں ناپید ہو جائیں گی جس خطہ کی معیشت زوال پذیر ہو جائے گی اور اس خطہ کے لوگوں پر جس جدید معاشرے کی معیشت غلبہ پا لے گی اس جدید معاشرے کی زبان، مقامی زبان کے الفاظوں پر غلبہ پانے لگے گی.   مستقبل بعید میں صرف وہ زبانیں باقی بچ جائیں گی جن میں نت نئی سائنسی علوم کی تحقیق و ایجادات ممکن بنائی جائیں گی.

very funny hhhh


Bya Kady Bareegee


Wednesday, December 28, 2016

سوشل میڈیا نے زرداری کو بھی چونکا دیا

زرداری صاحب کی تقریر سے مثبت بات جو مجھے لگی وہ یہ کہ سوشل میڈیا کی آواز اشرافیہ تک پہنچنے لگی ھے تبھی صاحب کے منہ سے سوشل میڈیا کی طاقت کا اعتراف کیا گیا. مجھے اکثر دوست یہ کہا کرتے ھیں کہ کیا فائدہ آواز اٹھانے کا ... کونسا ارباب اختیار تک پہنچتی ھے. سنو دوست مثبت آواز اٹھانا اور مقتدر بھر کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ھے ایکدن آئیگا یہ ہلکی آوازیں ... ارباب اختیار کو جنھجوڑے گیں انہیں اپنا طور طریقہ بدلنے پر مجبور کردے گیں. سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کیساتھ عملی میدان میں بھی اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنا ہوگی تبھی کامیابی ممکن ہو پائے گی.   م

ارسطو افلاطون اور سقرات کون تھے اور آپس میں کیا رشتہ تھا

ارسطو جس کو انگریزی میں "اریس ٹاٹل" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔یہ افلاطون کا سب سے قابل شاگرد تھا۔ اور افلاطون ایک اور قدیم فلاسفر سقراط کا شاگرد تھا۔ارسطو کے بہت سے اقوال آج بھی ضرب مثل کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ جو کہ کافی حکمت بھرے اقوال ہیں۔
ارسطو قدیم یونان کا عظیم ترین نہ صرف فلسفی بلکہ اپنے دور کا سائنس دان بھی تھا۔ اگرچہ آج کے دور میں اس کے بہت سے نظریات متروک ہو چکے ہیں لیکن اس کی عقلی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے علم کی متعدد شاخوں میں اضافے کئے اور نئی روایات قائم کیں۔ یورپ کی تہذیب اور علمی زندگی پر جتنا اثر ارسطو نے ڈالا ہے اتنا کسی دوسرے انسان نے نہیں ڈالا۔ عہدِ قدیم کے اوائل میں اس کا استاد افلاطون دنیا کا بہت بڑا فلسفی اور معلم تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن بارہویں صدی عیسوی کے بعد فکر کے ہر دائرے میں ارسطو آخری سند تسلیم کیا گیا۔آئیے اس کی زندگی کے بارے اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو بتاتے ہیں۔
ارسطو مقدونیہ کے بادشاہ امینتاس کے ایک درباری طبیب کے ہاں 384 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ باپ کو تشریح اعضاء اور علمِ حیوانات سے بے حدشغف تھا۔ بیٹے نے بھی ابتدا سے انہی علوم میں دلچسپی لی۔ بڑے بڑے فلسفیوں کی طرح وہ اپنی علمی تحقیقات میں بہت زیادہ باریک بین اور محقق تھا۔ ارسطو اگرچہ شاہ امینتاس کے پوتے سکندرِ اعظم کا اتالیق مقرر ہوگیا تھا لیکن حکیم اور عالم ہونے کی حیثیت سے وہ ہمیشہ ہی نامور رہا۔ سترہ سال کی عمر میں ارسطو، افلاطون کا شاگرد ہوا اور بیس برس تک یعنی افلاطون کے انتقال تک اس سے فیضیاب ہوتا رہا۔ذہن میں رہے یہ وہ ہی افلاطون ہے جو سقراط کا شاگرد تھا۔سقراط افلاطون کے مکالمات کا کم و بیش مرکزی کردار ہے۔ مگریہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ تحریر کردہ دلائل میں سے کون سے افلاطون کے اور کونسے سقراط کے ہیں۔کیونکہ سقراط نے بذات خود کچھ تحریر نہیں کیا۔ افلاطون پر ایک پوسٹ اس دلچسپ معلومات پیج پر گزرچکی ہے۔ اس کے بعد ارسطو بارہ سال تک یونان میں گھومتا پھرتا اور تعلیم دیتا رہا۔ جب سکندر مقدونیہ کا بادشاہ ہوا تو ارسطو ایتھنز واپس آگیا اور یہاں اس نے فلسفہ کا وہ مدرسہ قائم کیا جسے مشائیوں کا مدرسہ کہتے ہیں۔ مشائی’’مشی‘‘ سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے ٹہلنا، چونکہ اس مدرسے میں استاد اور شاگرد ایک طویل راستے پر ٹہلتے ہوئے تعلیم دیتے اور تعلیم حاصل کرتے تھے، اس لیے اس کو’’مکتبِ مشائین‘‘ کہا جاتا تھا۔
اگرچہ ارسطو نے ایک مثالیت پسند استاد یعنی افلاطون سے تعلیم حاصل کی تھی لیکن وہ خود حقیقت پسند فلسفی تھا۔ اس نے حیاتیات اور نفسیات کے متعلق ایسی بنیادی معلومات مہیا کیں جو دو ہزار سال کے سائنسی امتحان کے بعد بھی صحیح ثابت ہوئیں۔ حکومت و ریاست کے متعلق ارسطو کا شغف اس قدر زیادہ تھا کہ اس نے ریاستوں اور شہروں کے آئین پر کم سے کم 157 رسالے لکھے۔ افسوس کہ یہ رسالے گزشتہ صدیوں میں کہیں ضائع ہوگئے۔ صرف ’’دستورِ ایتھنز‘‘ کا رسالہ دستبردِ زمانہ سے محفوظ رہ گیا۔ارسطو کی نہایت اہم کتابوں میں ایک کتاب ’’آرگینان‘‘ ہے۔ جس میں علمِ منطق کے متعلق چھ مقالات ہیں: دوسری کتابیں’’مابعد الطبیعات‘‘، ’’تاریخِ حیوانات‘‘، ’’اعضائے حیوانات‘‘، ’’طبیعات‘‘ ،’’فلکیات‘‘ اور’’سیاسیات‘‘ ہیں۔
وہ تمام عظیم مفکر جن کا شاندار کام قدیم زمانے سے ہم تک پہنچا ان میں سے سب سے اہم ارسطو ہے۔ افلاطون کی مقبولیت اگرچہ ارسطو سے زیادہ ہے لیکن ارسطو کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں کیونکہ ارسطو نے بھی اپنے کام کی وجہ سے بہت جلد مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ ارسطو نے نظریات کے بجائے حقائق پر زیادہ توجہ دی۔ ارسطو نے تجربات کرنے پر وقت ضائع نہیں کیا۔ ارسطو کے لیے بھی یہ دنیا اتنی ہی پراسرار تھی جتنی کہ افلاطون کے لیے لیکن ارسطو نے اس پراسرایت کو ایک چیلنج سمجھا اور اس کے اسرار جاننے کی کوشش کی۔ اس لیے اس نے فلسفے کے علاوہ فطرت، تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، علم الاعضاء، اناٹمی، طبیعات، فلکیات، سیاسیات اور اخلاقیات کے بارے میں لکھا۔ اگرچہ اس کا بہت سا کام دستبردِ زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکا لیکن جو ضائع ہونے سے بچا اس میں سے بھی زیادہ کام کو جدید سائنس نے کالعدم قرار دے دیا ہے لیکن ارسطو نے جو کام اخلاقیات کے حوالے سے کیا اس کو جدید زمانے نے بھی سراہا ہے اور اس کی ’’اخلاقیات‘‘ ہر حوالے سے مکمل اور ہر زمانے کے لیے ہے۔ ارسطو کی ’’اخلاقیات‘‘ کے شاندار حقائق ارسطو کے اپنے زمانے میں بھی دوسرے مفکرین سے مختلف تھے اور اس کی انفرادیت اب بھی قائم ہے۔ ارسطو کا والد بادشاہ مقدونیہ کا طبیب تھا۔ ارسطو کی عمر ابھی چند سال ہی تھی کہ اس کا والد وفات پا گیا۔ جب اس کی عمر 17 سال کے قریب تھی تو وہ خود ہی ایتھنز چلا آیا۔ یہاں اس نے افلاطون کی معروف اکیڈمی میں افلاطون کی شاگردی اختیار کی۔ وہ اس اکیڈمی میں افلاطون کے ساتھ 20 سال تک رہا۔ تب اپنے استاد کی موت کے بعد اس نے اکیڈمی کو چھوڑ دیا اور کئی سالوں تک مختلف شہروں میں تعلیم دیتا رہا۔343 قبل مسیح میں مقدونیہ کے بادشاہ فلپ نے اس کو اپنے بیٹے سکندر کے لیے اتالیق مقرر کیا ہے۔( یہ وہ سکندر تھا جو بعد میں سکندر اعظم کہلایا)۔ بادشاہ فلپ اور اس کے بیٹے سکندر نے ارسطو کا بہت احترام کیا اور وہ اس کے فطری علوم سے بہت متاثر ہوئے۔ جب سکندر ایشیا کو فتح کرنے کی مہم پر روانہ ہوا تو ارسطو ایتھنز لوٹ گیا۔ یہاں اس نے لائسیم (Lyceum) کے گھنے درختوں میں فلسفے کا سکول قائم کیا کیونکہ ارسطو اپنے استاد افلاطون کی طرح اپنے شاگردوں کو تعلیم چل پھر کر دیتا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں سے دوسرے موضوعات پر بھی گفتگو کرتا تھا۔ سکندر کی موت کے بعد مقدونیہ کے نئے حکمرانوں نے ارسطو کی کوئی مدد نہ کی تو ارسطو بحیرہ اسود کے کنارے کالسس(Chalcis) کے مقام پر چلا گیا۔ یہیں اس نے 322 قبل مسیح میں وفات پائی۔

Hamza baba ka Munfared Ghazal


ائ ایم ایف کیسے ملکوں غلام بنا دیتے ہیں

مختلف ممالک کو بینکوں کا غلام بنانے کے لیئے ورلڈ بینک کا چار مرحلوں پر مشتمل یہ منصوبہ ہوتا ہے۔

پہلا مرحلہ۔ نج کاری
اس مرحلے میں اس ملک کے لیڈروں کو رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اثاثے کئی ارب ڈالر کم قیمت پر ورلڈ بینک کے ہاتھوں بیچ دیں۔ اس کے لیئے ان بددیانت لیڈروں کو دس فیصد کمیشن دیا جاتا ہے جو انکے سوئیس بینک کے خفیہ اکاونٹ میں جمع ہو جاتا ہے۔
دوسرا مرحلہ۔ سرمائے کی آزادانہ منتقلی
اس مرحلے میں وہ سارے قوانین منسوخ کرائے جاتے ہیں جو سرمایہ بیرون ملک بھیجنے میں آڑے آتے ہیں یا ان پر ٹیکس کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر باہر سے بڑی مقدار میں سرمایہ اس ملک میں داخل ہوتا ہے اور جائیدادوں کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس ملک کی کرنسی کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ ملک بہت تیزی سے ترقی کرنے والا ہے۔ عین اس موقع پر بیرونی سرمایہ اچانک ملک سے باہر چلا جاتا ہے اور معیشت بُری طرح بیٹھ جاتی ہے۔

اب اس ملک کو آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے اور آئی ایم ایف اس شرط پر مدد فراہم کرتا ہے کہ شرح سود میں 30 سے 80 فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ یہ سب انڈونیشیا اور برازیل میں ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ ایشیا اور جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں بھی ہوا ہے۔ بلند شرح سود کی وجہ سے اس ملک پر غربت چھا جاتی ہے، جائیدادوں کی قیمتیں بہت زیادہ گر جاتی ہیں، صنعتی پیداوار صفر کی سطح پر آ جاتی ہے اور حکومتی ادارے مفلس ہو جاتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ۔ مہنگائی اور بد امنی
خراب معیشت اور کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے اس ملک میں مہنگائی بہت بڑھ جاتی ہے۔ جب غذائی اجناس، پانی اور گھریلو استعمال کی بجلی گیس کی قیمت بڑھتی ہے تو اس ملک میں عوامی بے چینی بڑھتی ہے اور پہلے سے لگائے ہوئے اندازے کے مطابق جرائم اور فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی صورتحال دیکھ کر اس ملک کے سرمایہ دار اپنے پیسے دوسرے ممالک جنہیں وہ محفوظ تصور کرتے ہیں وہاں منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح حکومت کے بینک کنگال ہو جاتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ۔ آزاد تجارت
اب وہ وقت ہوتا ہے جب بین الاقوامی کارپوریشنیں ان ممالک کا رخ کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور یورپ ان بیچارے ممالک کی زراعتی پیداوار کی اپنے ہاں درآمد پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ اب ان ممالک کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا جسے بیچ کر وہ کما سکیں۔ امیر ممالک اپنی دوائیں تک اتنی مہنگی کر دیتے ہیں کہ ان غریب ممالک میں بیماری اور موت کی شرح بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں کتنے ہی لوگوں کا نقصان کیوں نہ ہو، بینکار ہمیشہ نفع میں رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے قرضہ لینے والے ہر ترقی پذیر ملک پر قرضہ لینے کی شرط ہی یہ رکھی ہے کہ بجلی پانی ٹیلیفون اور گیس کے نظام پر انکا کنٹرول ہو گا۔ اندازہ ہے کہ عوام کی اس دولت کی مالیت 4000 ارب ڈالر ہے۔

(جوزف اسٹگلیز (Joseph Eugene Stiglitz) کی کتاب سے ماخوذ)

Tuesday, December 27, 2016

what they did


ایک دفعہ ایک گدھا ایک گہرے کنویں میں جا گرا اور زور زور سے رینکنے لگا. گدھے کا مالک کسان تھا جو کنویں کے کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا. جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گدھا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں، اور کنویں کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں. یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور کنواں بند کرنا شروع کر دیا. سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ کنویں میں ڈال رہے تھے..

 گدھا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا. اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی. کچھ ہی لمحے بعد گدھا بالکل خاموش سا ہو گیا. جب کسان نے کنویں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گدھے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے. یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا. کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گدھا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے کنویں کے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا. یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں پڑ گئے. ان کی حیرانی قابل دید تھی. اس غیر متوقع نتیجے پر وہ گدھے سے بھی بڑھ کر مجسمہ حیرت بنے ہوئے تھے.

 زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے، ہماری کردار کشی کی جائے، ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے، ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے، لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں، بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے. زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں...خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا...!!

بریکنگ نیوز ڈی ائ خان فاٹا سیاسی اتحاد کا کامیاب جلسہ

ڈی ائ خان میں فاٹا سیاسی اتحاد کا کامیاب جلسہ ۔

اطلاعات کے مطابق فاٹا سیاسی اتحاد نے ایف سی آر کے ظالمانہ قانون کا مکمل خاتمہ تک چین سے نہ بیٹھنے کا عہد کیا ہے اور ایف سی آر کے خاتمہ کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنانے پر ہر محاز پر کوشش کو تیز کرنے پر متفقہ قرارداد منظور کرا لی گئی ہے ۔

تمام محب وطن قبائل مکمل طور پر دیگر پاکستان میں مروجہ قانون قبائلی عوام کے لئیے بھی چاہتے ہیں تاکہ قبائل بھی دیگر پاکستانیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں ۔

اور مزید پر زور اواز بننے کے لئیے کوششیں تیز کرنے کے لئیے جلسے اور مٹینگز جاری  رکھنے پر اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا

باجوڑ کے سیاسی اتحاد صدر کو مبارک باد

باجوڑ سیاسی اتحاد کے نو منتخب صدر جناب عبدالمجید صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ،

ہمیں امید ہے باجوڑ سیاسی اتحاد ایف سی آر کے خاتمے کیلئے بھر پور کر دار ادا کریگی

ہم  انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ایف سی آر کے خاتمے تک اپ لوگوں کے شانہ شانہ بشانہ ہونگے

فاٹا کی مستقبل پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں

فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن باجوڑ ایجنسی

مشرق کی بیٹی

مشرق کی بیٹی اور ہماری ماں http://www.humsub.com.pk/38064/farnood-alam-85/مشرق کی بیٹی اور ہماری ماں http://www.humsub.com.pk/38064/farnood-alam-85/

خوب تر

ایک خط

میرے پیارے جیالو اور جانثارو سلام،








میں تم سب سے معافی مانگنا چاہتی ہوں کہ آٹھ سال بعد پہلا خط لکھ رہی ہوں۔ اب یہ بتانے کا تو کوئی فائدہ نہیں کہ میں نے کتنی بار سوچا ہوگا، قلم اٹھایا ہوگا اور رکھ دیا ہوگا۔
یہاں زمین کے برعکس سکون ہی سکون ہے۔ زندگی دیکھنے میں ہر طرح سے خوبصورت ہے۔ پاپا اور ماں ساتھ والے کاٹیج میں ہیں۔ شاہنواز بھی انہی کے ساتھ رہتا ہے۔ مرتضی کا کاٹیج کچھ فاصلے پر ہے۔ ویسے وہ یہاں بھی کم کم نظر آتا ہے۔ ہمارے پچھلی طرف ان جیالوں کے لائن سے گھر ہیں جو 18 اکتوبر 2007 کو یہاں پہنچے یا پھر 27 دسمبر کو میرے ساتھ ہی چلے آئے ۔
حالانکہ یہاں کسی بھی طرح کے مسائل نہیں جو زمین پر ہم لوگوں کی زندگی کا حصہ تھے۔ مگر عادت سے مجبور جیالوں کو کون سمجھائے۔ بہانے بہانے رضوان سے چھپ کر کوئی نہ کوئی میٹنگ کر ہی لیتے ہیں۔ میں بھی دل رکھنے کے لیے اکثر چلی جاتی ہوں مگر جب سے میں آئی ہوں پاپا دو ایک بار کے بعد کبھی نہیں گئے۔
پاپا کو ماں نے شاید گھر میں زیادہ رہنے کی عادت ڈال دی ہے یا کبھی دونوں گھر سے نکلتے بھی ہیں تو سامنے کے باغ میں اپنی فیورٹ بنچ پر بیٹھ کر دیر تک پرندوں کی آوازیں سنتے اور ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں۔ اکثر سوچتی ہوں کیا یہ وہی پاپا ہیں جو زمین پر ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھتے تھے اور دو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے تھے
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں، پاپا اور ماں جب بھی مل بیٹھتے ہوں گے تو پاکستان کے حالات ڈسکس کرتے ہوں گے۔ کاش ایسا ہوتا مگر ایسا بالکل نہیں۔ ماں کو تو خیر نیچے کی زندگی کا کچھ یاد ہی نہیں البتہ پاپا سے جب جب پارٹی یا پاکستان کی بات کرنے کی کوشش کی تو فوراً چہرہ سپاٹ اور کان سرخ ہو جاتے۔ کون سی پیپلز پارٹی؟ میرے پاکستان کے تو سب لوگ یہاں ہیں۔ کون ہے جو اب تک زمین پر رہ رہا ہے؟ میں نے کئی بار وضاحت کے لیے منہ کھولنا چاہا پر نہیں کھلا۔
پچھلے ہی دنوں قاضی سلطان بھی یہاں پہنچا ہے۔ اب تک قاضی نے جو جو بتایا ہے اس کے بعد دل چاہتا ہے کچھ دن کے لیے ہی سہی مگر ایک بار پاکستان جاؤں۔ یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ رضوان بھی اب میری سیکورٹی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔
پیارے جیالو! جہاں میں ہوں وہاں کوئی رونا نہیں جانتا۔ مگر یہاں مامور فرشتے شاید مجھ سے یہ صلاحیت واپس لینا بھول گئے۔ اس لیے جب بھی رونے کو جی چاہتا ہے کمرہ بند کرلیتی ہوں تاکہ یہ راز بھی میرے یہاں تک پہنچنے کے راز کی طرح راز ہی رہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں تمہاری طرف سے غافل نہیں البتہ جیسی بے حسی پارٹی پر چھا گئی ہے اس کو دیکھ کر کبھی کبھی سناٹے میں ضرور آجاتی ہوں۔ پھر سوچتی ہوں ایسی خبریں تو آتی ہی رہیں گی۔ دل پر لے کر اپنا وقت اور موڈ کب تک برباد کیا جائے۔
زندگی ہو کہ پارٹی یا ایک خوبصورت مستقبل کی جدوجہد۔ تینوں کا حسن یقین سے بھرپور لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب یقین ہی اٹھ جائے تو کیسی زندگی، کیسی پارٹی اور کون سی جدوجہد۔
مجھے بالکل حیرت نہیں کہ میرے یہاں آنے کے بعد سے پیپلز پارٹی ایک فرنچائز بن چکی ہے۔ سنا ہے اب کوئی بھی سب سے اونچی بولی دینے والا یہ فرنچائز لے سکتا ہے۔ شاید اب یہ پارٹی نہیں وہ مزار ہے جس کے زائرین کی دیکھ بھال سے بے نیاز متولی بس صاحبانِ مزار کے نام پر عقیدت مندوں سے رقم بٹورنے میں لگے ہیں۔ جس کے ہاتھ جو بھی آجائے۔ دکھ بس اتنا ہے کہ یہ متولی آج بھی پاپا اور میرا نام اپنے کاروبار میں استعمال کر رہے ہیں۔
پیارے جیالو اور سرفروشو! مجھے اپنے قاتلوں کے نام جاننے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ پتہ چل بھی جائے تو مجھے کیا فرق پڑے گا۔ مگر افسوس ہے کہ آپ کے ارمانوں کا نیلام بھی اب ہمارے ناموں پر ہو رہا ہے۔ جبکہ ہم نے تو ان ارمانوں کو پروان چڑھایا تھا۔
کوشش کروں گی اگلے خط میں بہت سی اچھی اچھی باتیں کروں۔ مگر کیا کروں۔ آخر ہوں نا بھٹو کی بیٹی۔ جذباتیت ورثے میں ملی ہے۔ پھر بھی کوشش کروں گی جذبات سے عاری ہونے کی۔
نئے سال میں تم سب کی خوشیوں کے لئے دعاؤں کے ساتھ،
تمہاری بے نظیر بی بی بھٹو

ایسا اکثر ہوتا ہے

پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے مبارک آباد میں زہریلی شراب پینے سے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کم از کم 26 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
تھانہ سٹی ٹوبہ کے سٹیشن ہاؤس آفیسر محمد ندیم کے مطابق 40 افراد الائیڈ اسپتال فیصل آباد اور ڈی ایچ کیو ہسپتال ٹوبہ ٹیک سنگھ میں داخل ہیں جن کے معدوں کی صفائی اور علاج کیا جا رہا ہے۔
ایس ایچ او تھانہ سٹی ٹوبہ نے بتایا کہ 25 اور 26 دسمبر کی درمیانی رات مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے یہ افراد اپنی عید (کرسمس) کے موقعے پر جشن منا رہے تھے جس کے دوران اُنھوں نے شراب پی اور گھر چلے گئے۔ صبح 11 جب یہ افراد نہ اُٹھ سکے اور دیگر کئی کی طبیعت بگڑنا شروع ہوئی تو معاملے کا پتہ چلا اور اِن کو دو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
محمد ندیم کے مطابق مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو شراب کا بندوبست کرنا تھا۔ جب اُنھیں اپنے علاقے سے شراب نہیں مل پائی تو تو کہیں اور سے لے آئے۔
ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ساجد اور شریف شراب لے کر آئے تھے اور وہ خود بھی وہی زہریلی شراب پینے کے بعد ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں، تاہم علاقے میں پانچ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اور مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

اِس واقعے کا مقدمہ زہر خوردنی کی دفعات کے تحت درج کر لیا گیا ہے۔

Monday, December 26, 2016

تعلیم کی اہمیت اور ہمارا نظام تعلیم

تعلیم کی اہمیت اور ہمارا نظام تعلیم


تعلیم انفرادی اور اجتماعی طور پر سب کے لئے نہایت اہم ہے۔ تعلیم معاشرے کو بہترشہری ذہین بچے اور باشعور ووٹرز دیتی ہے۔ تعلیم ہر قوم کی بنیاد ہوتی ہے۔ جو قوم کو معاشی دولت، معاشرتی استحکام اور سیاسی قابلیت دیتی ہے۔ تعلیم ایک بہترین سرمایا کاری ہے جو لوگوں کو ملازمت کے مواقع مہیا کرتی ہے اور ایک اچھا انسان بننے میں مدد دیتی ہے۔ انفرادی طور پر تعلیم یافتہ ہونا کسی بھی ملکی کی ترقی و استحکام کے لئے ضروری ہے۔ تعلیم میں سرمایہ کاری بہتر اور پڑھی لکھی لیبر فورس، پیداواری صلاحیتوں اور ہنر مند ورکرز میں اضافہ کری ہے۔ تعلیم میں سرمایہ کاری اور تجارت ترقی یافتہ ممالک میں معاشی و معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے۔ تعلیم حکومت اور عوام دونوں کو برابر نفع دیتی ہے۔ تحریک پاکستان سے قبل برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی شرح خواندگی نہایت کم تھی۔ سرسید احمد خان نے نہایت کم وسائل اور دو مختلف قوموں کے باوجود جو اقدامات اٹھائے اس جیسی مثالیں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایک سکول کو کالج اور یونیورسٹی تک لے گئے جب مسلمان اس وقت ایسی اعلی کاوشیں کر سکتے ہیں۔ تو آج اس آزاد ملک میں کیوں نہیں کر سکتے۔
ہمارے مذبت میں بھی تعلیم پر بہت زور دیا گیا ہے اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کو بہت اہمیت دیاسی لئے جنگی قیدیوں کی رہائی مسلمان بچوں کو پڑھانے کے عوض رکھی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم ان سے مستفید نہیں ہو پا رہے۔ ابتدائی تعلیم بچوں کو ٹھوس بنیاد مہیا کرتی ہے۔ جو سب بچوں کو سکول سے ملتی ہے۔ اگر سکول کا ماحول اور اساتذہ کی حکمت عملی اچھی ہو تو یہ دونوں عوامل بڑھتے بچوں کو ترقی کی جانب راغب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں تو سکولوں کا کوئی حال نہیں ہے۔ نہ صرف پسماندہ علاقوں میں بلکہ شہروں میں بھی۔ گورنمنٹ سکولز کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں۔ میڈیا بھی سکولوں کی زبوں حالی کے حوالے سے اکثر بات کرتا رہتا ہے۔ دیہی علاقوں میں سکولوں کی حالت ذیادہ قابل توجہ ہے کیونکہ اکثر سکولوں کی عمارت بوسیدہ ہو چکی ہے اندر پانی کھڑا ہوتا ہے جس میں بھینسیں بیٹھی نظر آتی ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں سکولوں کو بطور گودام استعمال کیا جا رہا ہے اور کہیں طلباء ٹیچر کے انتظار میں بیٹھے ہیں لیکن استاد چھٹی پر ہے۔ اگر سکول کی عمارتوں کو درگزر کر بھی دیا جائے تو اساتذء کو کون سمجھائے جن کو ہمارے مذہب میں روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور بچوں کی تعلیم کا اس طرح سے حرج نہ کریں۔ کئی سال پہلے اساتذہ گاؤں میں درختوں کے نیچے کھلے میدانوں میں بھی بچوں کو پوری دل جمعی اور ذمہ داری سے پڑھاتے تھے۔ لیکن اب وہ حالات ہی نہیں ہیں۔ خوتین اساتذہ سکولوں میں بچوں سے یا تو پیر دبواتی ہیں یا اپنے ذاتی کام کرواتی ہیں۔ کیا والدین اپنے بچوں کو سکول اس لیے بھیجتے ہیں تاکہ وہ یہ کام کریں اور پڑھائی میں دل نہ لگائیں۔ سکولوں میں بچے جب سوالات کرتے ہیں تو دوسری بار سوالات پوچھنے پر ان کو ڈانٹ کا چپ کروا دیا جاتا ہے۔ کیا یہی وہ تعلیم ہے جس کے لیے ہمارے بچے سکول جاتے ہیں۔ 
تو بات یہ ہے کہ معیاری تعلیم کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت ہر لحاظ سے اپنی ذمہ داریاں پوری کے۔ بہتر سکول کی عمارتیں تعمیر کی جائیں۔ معیاری انفراسٹکچر تعمیر کیا جائے اور تمام تر ضروری سہولتیں دی جائیں اس طرح نہ صرف تعلیم بھی معیاری ہو گی اور ملک و معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔

غربت اور پاکستان

تجزیاتی رپورٹ : صیاب بیگ ، تہلکہ ٹی وی 
عالمی بینک کے نمائندے نے پاکستان میں غربت کی حد درجہ بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا ۔ بدانتظامی اور کرپشن کو اس مسلئے کی جڑ قرار دیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے حوالے سے پاکستان ایشائی ممالک میں سب سے آگے ہے۔عالمی اداروں کے اعدادوشمار کی روشنی میں مہنگائی پر قابو پالینے کے دعوئے کمزور پڑگئے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی عوام ایک تہائی% 39مفلسی سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں غربت اور مہنگائی تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے اور پچھلے 20برسوں سے یہ عمل تیزی سے بڑھ رہا ہے۔بلوچستان میں مہنگائی کی شرح 71% ، فاٹا میں 73% ،خیبرپختونخوا میں 49% ، گلگت بلتستان اور سندھ میں 43% ،پنجاب میں 31% اور آزاد کشمیر میں 25% لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
یہاں جمہوری حکومتیں بھی رہیں اور فوجی حکومتیں بھی لیکن مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔لوگوں نے مہنگائی اور بیروز گاری سے تنگ آ کر خود کشیاں شروع کر دیں ۔پڑھے لکھے نوجوانوں نے بے روزگاری کی وجہ سے خود کشیاں کیں اور سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں اور ان پڑھ جعلی ڈگریوں والے حکمران ،MNA ،MPA ، بنے بیٹھے ہیں ۔بعض خواتین اپنے بچے اور بچیوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو گئیں۔مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہماری نسلیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں غلط کاریوں میں پڑ گئے ۔عورتیں اپنی عزت لوٹانے میں مجبور ہو گئی جس کی وجہ سے ہماری نسلیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں ۔غربت اور مہنگائی کی وجہ سے ہمارے بچے پڑھ نہیں سکتے ۔ 8,9 سال کی عمر میں مزدوری کرنے پر مجبورہو جاتے ہیں ۔جس عمر میں بچے کے کردار و اخلاقیات اور قائدانہ صلاحیت کو ابھارا جاتا ہے اس عمر میں ہم اپنے بچوں کو مزدوری پر لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کے غلط اثرات بچوں کے ذہنی نشونما پر اثر کرتے ہیں اور اس چھوٹی سی عمر میں بچے غلط کاریوں میں پڑ جاتے ہیں ۔جس معاشرے میں اتنے بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا عمل جاری ہو ،جہاں عدلیہ اور تعلیمی شعبے بھی 92%تک بدعنونی کی دلدل میں دھنسے ہوے ہوں ۔جہاں عام آدمی کیلئے نہ پولیس کسی تحفظ کی ضامن ، نہ انصاف ملنے کی کو ئی امید ہو ۔ آخر اس عام آدمی کا کیا قصور ہے ؟؟
غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ ہشتگردی کو قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ اس حالت میں آخر کون کس کی ضمانت پر ملک میں سرمایہ کاری کرے گا؟ کون صنعتیں لگائے گا؟ اور کون کارخانے لگائے گا ؟ انہی عوامل کی بنیاد پر ملک میں نہ نئی صنعتوں کا قیام ہو ہو رہا اور نہ کوئی برائے راست سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔اس لئے کوئی نیا کاروبار لگانے میں دلچسپی نہیں لے رہاجب تک نئے کاروبار شروع نہ ہوں اور نئی صنعتیں نہ لگائی جائیں تب تک نہ روزگار کیلئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور نہ ہی بے روز گاری ، مہنگائی اور غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ کس جگہ کون سی صنعت لگائی جائے۔جب تک نئی صنعتیں نہیں بن جاتی تب تک بیروزگاری بڑھتی جائے گی اور جو صنعتیں لگائی گی ہیں ان میں پہلے سے اتنے ورکر کام کر رہے ہیں کہ نئے ورکروں کیلئے جگہ ہی نہیں ہوتی ۔کام کیلئے لوگ سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں ۔جو مڈل پاس ہے وہ کو ٹھیوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور جو پوری زندگی پڑھ کر ڈگریاں حاصل کرتے ہیں وہ سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں ۔
یہ ناانصافی اور غیر منصفانہ تقسیم ہے۔اس کی اصلاحات ضروری ہیں ۔کیونکہ امیر ، امیر سے امیر تر اور غریب ،غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔یہاں بادشاہ خدا بن بیٹھے ۔فحاشی اور عریانی عروج پر ہے۔اس ملک میں آٹا مہنگا اور انسان سستا ہو گیا ،کوئی کسی کا نہیں رہا ۔کلاشنکوف عام اور کتابیں جام ہو گی۔حکمران سیاست کے نام پر اپنا کاروبار مضبوط کر رہے ہیں لیکن غریب کو دو وقت کی روٹی میسر ن

Sunday, December 25, 2016

المیہ

انسانی المیہ

انسانی عقل اور دلیل انسانی خواھش کی تسکین اور تسلی کے فرائض انجام دیتے ہیں.... یہ ہمارا ہر روز کا مشاہدہ ہے، انسان صرف وہی مطلب اٹھاتا ہے جو وہ اٹھانا چاہتا ہے خواہ قرآن کی آیت ہو یا کسی کا قول، نفس کے فریب اور دھوکوں کو اور ظن تخمین اور بے وقعت اندازوں کو علم کہتا ہے، ہمیشہ اپنے ہاتھوں نقصان اور خسارا اٹھاتا ہے اور اپنی نرگسیت اور خود پسندیوں کے پنجرے میں زندگی کے دن پورے کرکے اندھے گڑھے میں جا گرتا ہے...... پر مانتا نہیں کہ اس کو راہنمائی کی ضرورت ہے.... یا للعجب

ہم تو اس نکتے کو ضرورت وحی الہام کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد سمجھتے ہیں...
بعض کم فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ اب ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں , وحی الہام جزا سزا جنت دوزخ ، نیکی پاکیزگی تقوای طہارت ، یہ ساری چیزیں اب ماضی قدیم کے قصے کہانیاں رہ گئی ہیں ، انسان اب بہت سمجھدار ہو گیا ہے، اُس کی دُم اب گھس گھس کر گر گئی ہے اور وہ اب کسی آسمانی الہامی راہنمائ کا محتاج نہیں رہا۔۔

یاجوج ماجوج

کیا آپ "یاجوج ماجوج" کے بارے میں کچھ دلچسپ و عجیب جاننا چاہتے ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے جن کو حضرت ذوالقرنین نے ایک دیوار کے پیچھے قید کردیا ہوا ہے، لیکن وہ نکلیں گے۔کیسے اور کب ؟ جانئیے ان کے متعلق کچھ دلچسپ و عجیب

یاجوج و ماجوج حضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں۔ یہ انسانی نسل کے دو بڑے وحشی قبیلے گزر چکے ہیں جو اپنے اِرد گرد رہنے والوں پر بہت ظلم اور زیادتیاں کرتے اور انسانی بستیاں تک تاراج کر دیتے تھے۔ قرآن مجید کی آیات، توریت کے مطالب اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شمال مشرقی ایشیا میں زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے وحشیانہ حملوں کے نتیجہ میں ایشیا کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں مصیبت برپا کرتے تھے۔ بعض تاریخ دانوں نے ان کے رہائشی علاقے کو ماسکو اور توبل سیک کے آس پاس بتلایا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ یاجوج و ماجوج کے شہر تبت اور چین سے بحرمنجمد شمالی تک اور مغرب میں ترکستان تک پھیلے ہوئے تھے۔

حضرت ذوالقرنین کے زمانے میں یاجوج و ماجوج کے حملے وبال جان بن گئے تھے، ان کی روک تھام کیلئے ذوالقرنین نے پہاڑوں کے مابین اونچی اور مضبوط سد (دیوار) تعمیر فرمائی۔ ذوالقرنین اور سدِ ذوالقرنین کا ذکر قرآن کریم کی سورة الکہف میں موجود ہے۔

جس ذوالقرنین کا قرآن میں ذکر ہے، تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے، تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں یہ داستان کس پر منطبق ہوتی ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت اور سدِ ذوالقرنین سے متعلق مختلف اندازے لگائے ہیں۔ بہت سے قدیم علماء اور مفکر سکندرِ اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں مگر بعض اس کا انکار کرکے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر ذوالقرنین کو قدیم ایرانی بادشاہ سائرس اعظم (کورش اعظم)کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمران تھا جس کو اللہ نے اسباب و وسائل کی فروانی سے نوازا تھا۔ وہ مشرقی اور مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درّے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے۔ قرآن کریم کی سورة کہف میں بحوالہ یاجوج ماجوج ذوالقرنین کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جب وہ اپنی شمالی مہم کے دوران سو دیواروں (پہاڑوں) کے درمیان پہنچا تو وہاں اسے ایسی قوم ملی جس کی زبان ناقابل فہم تھی تاہم جب ترجمان کے ذریعے گفتگو ہوئی تو انہوں نے عرض کیا کہ یاجوج ماجوج اس سرزمین پر فساد پھیلاتے ہیں لہٰذا تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک سد (دیوار) تعمیر کر دے۔ چنانچہ پھر یہ تفصیل ہے۔

کس طرح ذوالقرنین نے اُس قوم کو یاجوج ماجوج کی یلغار سے بچانے کیلئے دیوار بنائی اور جو دیوار بنائی گئی وہ کوئی خیالی اور معنوی نہیں بلکہ حقیقی اور حسی ہے جو کہ لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے بنائی گئی تھی جس سے وقتی طور پر یاجوج ماجوج کا فتنہ دب گیا۔ جب یہ دیوار تعمیر ہو گئی تو ذوالقرنین نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالآخر فنا ہونے والی ہے اور جب میرے رب کے وعدے کا وقت قریب آئیگا تو وہ اس کو پیوندخاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ رہی یہ بات کہ سدِ ذوالقرنین کہاں واقع ہے؟

تو اس میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ آج تک ایسی پانچ دیواریں معلوم ہو چکی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں جنگجو قوموں کے حملوں سے بچائو کی خاطر بنوائی تھیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور دیوارِ چین ہے جس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے اور اب تک موجود ہے لیکن واضح رہے کہ دیوارِ چین لوہے اور تابنے سے بنی ہوئی نہیں ہے اور نہ وہ کسی چھوٹے کوہستانی درّے میں ہے ، وہ ایک عام مصالحے سے بنی ہوئی دیوار ہے۔ بعض کا اصرار ہے کہ یہ وہی دیوار ”مارب” ہے کہ جو یمن میں ہے، یہ ٹھیک ہے کہ دیوارِ مارب ایک کوہستانی درے میں بنائی گئی ہے لیکن وہ سیلاب کو روکنے کیلئے اور پانی ذخیرہ کرنے کے مقصد سے بنائی گئی ہے۔

ویسے بھی وہ لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی نہیں ہے جبکہ علماء و محققین کی گواہی کے مطابق سرزمین ”قفقاز” میں دریائے خزر اور دریائے سیاہ کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جو ایک دیوار کی طرح شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ اس میں ایک دیوار کی طرح کا درّہ بھی موجود ہے جو مشہور درّہ ”داریال” ہے۔ یہاں اب تک ایک قدیم تاریخی لوہے کی دیوار نظر آتی ہے، اسی بناء پر بہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ دیوارِ ذوالقرنین یہی ہے۔ اگرچہ سدِ ذوالقرنین بڑی مضبوط بنا ئی گئی ہے جس کے اوپر چڑھ کر یا اس میں سوراخ کرکے یاجوج ماجوج کا اِدھر آنا ممکن نہیں لیکن جب اللہ کا وعدہ پورا ہوگا تو وہ اسے ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کا ظہور ہے۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضور نبی کریمﷺنے اس دیوار میں تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کیلئے چھوڑ دیتے ہیں لیکن جب اللہ کی مشیات ان کے خروج کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل اِن شاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور زمین میں فساد پھیلائیں گے یعنی انسانوں کو بھی کھانے سے گریز نہیں کرینگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو طور کی طرف جمع کرلے کیونکہ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کسی کے بس میں نہ ہوگا۔

حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھی اس وقت ایسی جگہ کھڑے ہوں گے جہاں غذا کی سخت قلت ہوگی پھر لوگوں کی درخواست پر حضرت عیسیٰ یاجوج ماجوج کیلئے بددعا فرمائیں گے پس اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں اور کانوں میں کیڑا پیدا کر دے گا جو بعد میں پھوڑا بن جائے گاجس کے پھٹنے سے یہ ہلاک ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ سب سے سب مر جائیں گے ، ان کی لاشوں سے ایک بالشت زمین بھی خالی نہ ہوگی اور ہر طرف ان کی لاشوں کی گندی بو پھیل جائے گی ، پھر عیسیٰ ابن مریم دعا کریں گے تو اللہ جل و شانہ اونٹ کی گردن برابر پرندے بھیجیں گے جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جانے کہاں پھینک دینگے ، پھر ایک بارش ہوگی جس سے کل زمین صاف شفاف ہو جائے گی اور ہر طرف ہریالی و خوشحالی ہوگی۔

صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا، جس سے ان مفسرین کی تردید ہو جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ یا منگول ترک جن میں سے چنگیز بھی تھا یا روسی اور چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں، کیونکہ یاجوج و ماجوج کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور شر و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہوگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے۔

Saturday, December 24, 2016

فرنود عالم سے

"پچیس دسمبر اور دو باتیں"

حضرت یسوع مسیح نے اپنے ہونہار شاگرد بطرس سے کہا تھا

"بلکہ وہ وقت آتاہے کہ جو کوئی تمہیں قتل کرے گا، وہ گمان کرے گا کہ میں خدا کی خدمت کررہا ہوں. خدا کی خدمت تو یہ ہے کہ تم انسان کی خدمت کرو.
اور جوکوئی تمہارے ایک گال پہ تھپڑ رسید کرے، تم دوسرا گال پیش کردو. جو کوئی تم سے قطع تعلق کرے، تم اس سے تعلق کو نبھاو. نیک بننا کوئی بات نہیں، بات تو یہ ہے کہ تم انسانوں کے ساتھ  کوئی نیکی بھی کرو".

تمام مسیحی شہریوں کو حضرت یسوع مسیح کا جشن ولادت باسعادت مبارک ہو.

قائد اعظم محمد علی جناح نے گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو مجلس دستور ساز سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا

"اب آپ اس مملکت میں آزاد ہیں. اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں. آپ کا کسی مذھب ، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں.
جیساکہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی بدترتھے جیسا کہ آج ہندوستان میں پائے جاتے ہیں. رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر بہت ظلم ڈھائے. آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتاہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں. خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالات میں سفر کا آغاز نہیں کیا.
ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کررہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں. انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور اس بار گراں سے انہیں سبکدوش ہونا پڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا. وہ بتدریج آگ کے اس مرحلے سے گزرگئے.

آپ بجا طورپر کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ. اب جو چیز موجود ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرد برطانیہ عظمی کا برابر کا شہری ہے.
میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اسی بات کو نصب العین کے طور پہ پیش نظر رکھنا چاہیئے. آپ دیکھیں گے ایک وقت آئے گا کہ یہاں نہ ہندو ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان رہے گا. یہ مذہبی اعتبار سے نہیں کہہ رہا، کیونکہ یہ تو ذاتی عقائد کا معاملہ ہے. یہ بات سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں"

تمام پاکستانیوں کو قائداعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت با سعادت مبارک ہو.

فرنود عالم سے

"پچیس دسمبر اور دو باتیں"

حضرت یسوع مسیح نے اپنے ہونہار شاگرد بطرس سے کہا تھا

"بلکہ وہ وقت آتاہے کہ جو کوئی تمہیں قتل کرے گا، وہ گمان کرے گا کہ میں خدا کی خدمت کررہا ہوں. خدا کی خدمت تو یہ ہے کہ تم انسان کی خدمت کرو.
اور جوکوئی تمہارے ایک گال پہ تھپڑ رسید کرے، تم دوسرا گال پیش کردو. جو کوئی تم سے قطع تعلق کرے، تم اس سے تعلق کو نبھاو. نیک بننا کوئی بات نہیں، بات تو یہ ہے کہ تم انسانوں کے ساتھ  کوئی نیکی بھی کرو".

تمام مسیحی شہریوں کو حضرت یسوع مسیح کا جشن ولادت باسعادت مبارک ہو.

قائد اعظم محمد علی جناح نے گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو مجلس دستور ساز سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا

"اب آپ اس مملکت میں آزاد ہیں. اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں. آپ کا کسی مذھب ، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں.
جیساکہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی بدترتھے جیسا کہ آج ہندوستان میں پائے جاتے ہیں. رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر بہت ظلم ڈھائے. آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتاہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں. خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالات میں سفر کا آغاز نہیں کیا.
ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کررہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں. انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور اس بار گراں سے انہیں سبکدوش ہونا پڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا. وہ بتدریج آگ کے اس مرحلے سے گزرگئے.

آپ بجا طورپر کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ. اب جو چیز موجود ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرد برطانیہ عظمی کا برابر کا شہری ہے.
میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اسی بات کو نصب العین کے طور پہ پیش نظر رکھنا چاہیئے. آپ دیکھیں گے ایک وقت آئے گا کہ یہاں نہ ہندو ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان رہے گا. یہ مذہبی اعتبار سے نہیں کہہ رہا، کیونکہ یہ تو ذاتی عقائد کا معاملہ ہے. یہ بات سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں"

تمام پاکستانیوں کو قائداعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت با سعادت مبارک ہو.

مجسمہ

نوجوان جوڑے کا مجسمہ
 23-12-2016



پرانے تذکروں میں ایک ایسی سرزمین کا ذکر ملتا ہے جہاں یہ رواج تھا کہ مرد اور عورتیں نگاہیں جھکا کر چلیں۔

انھیں آسمان کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اگر کبھی کسی سے یہ جرم سرزد ہو جاتا تھا تو قانون اور رواج کے مطابق اسے سخت کا حق دار ٹھہرایا جاتا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس رسم کا آغاز ایک ظالم و جابر فرماں روا کے دور میں ہوا جو اپنی رعایا سے اپنے آپ کو اس قدر بلند و بالا تصور کرتا تھا کہ اس نے اپنی ذات یا اپنے تخت کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کو جرم قرار دے دیا تھا۔ حد یہ ہے کہ خود اس کے خاندان کے افراد بھی اس کی اس تحقیرآمیز روش سے محفوظ نہیں رہے تھے۔ چنانچہ اس کے انتقال کے بعد جب نیا فرماں روا اپنا سر جھکائے اور نگاہیں زمین پر گاڑے اپے تخت کی طرف بڑھا تو اپنے پیش رو سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اس مقدس حکم کی پابندی کرنے اور کروانے لگا۔

مذہبی پیشوا اور سرکاری عملدار اس حکم کی نشر و اشاعت میں لگ گئے۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ حکم صاحب علم و فضل بزرگوں کی طرف سے جاری کیا گیا ہے اور جو بھی آسمان کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھنے کی جرات کرے گا وہ یقینا موقع پر ہی ہلاک ہو جائے گا۔ آسمان سے آنے والی شعایں زہریلی قرار دے دی گئیں اور وقتاً فوقتاً جو بجلی سی چمک جاتی تھی اسی کی یہ توجہ کی گئی کہ یہ گستاخ کو سزا دی جاتی ہے جو اپنی عاقبت اندیشی میں سر اٹھا کر دیکھنے کی حماقت کر بیٹھتا ہے۔ طبیعات دان اور فن کار دونوں ہی اس بات پر متفق تھے کہ آسمان کا رنگ پیلا ہے اور پیلا بھی ایسا کہ جسے دیکھ کر قے آئے اور جس کی کوئی مثال زمین پر موجود نہ ہو۔

اس عقیدے پر جنون کی حد تک ایمان رکھنے والوں کی تو ساری زندگی الٹا لیٹ کر رینگتے رہنے میں گزر جاتی۔ بہت جلد اس سرزمین کے سماجی ڈھانچے نے یہ شکل اختیار کر لی کہ سب سے زیادہ اہم اور اعلیٰ منصب اس شخص کو دیا جاتا جس نے سب سے زیادہ طویل عرصے تک اپنا سر جھکائے رکھا ہو۔ چنانچہ پست ترین افراد اس مقام پر آ گئے جنھیں ہم اعلیٰ ترین مراتب کہتے ہیں۔ بچے کو جھولنے میں منہ نیچا کر کے لٹایا جاتا اور مردوں کو قبروں میں اس طرح دفن کیا جاتا کہ ان کا رخ خاک کی طرف ہوتا۔

اس سرزمین پر بسنے والے چونکہ کسی اور طریق زندگی سے آگاہ نہیں تھے اس لیے کسی کو خوف و جبر کے اس ماحول میں مقید ہونے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔

تذکرہ نویسوں کے مطابق بہار کی ایک صبح ایک نوجوان لڑکی اور لڑکا ایک سبزہ زار سے گزر رہے تھے۔ اپنے چہار جانب کھلے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر انھیں بے انتہا مسرت ہو رہی تھی۔ نوجوان لڑکی کا خیال تھا نیلے شگوفے سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ لڑکے کو اس خیال سے اتفاق تھا مگر دونوں ہی کو اس بات کا دکھ تھا کہ نیلا جو سب سے زیادہ مسرور کن اور مسحور رنگ ہے، بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

ہر چند کہ وہ فرمان شاہی کی پابندی کرتے ہوئے نگاہیں جھکائے ٹہل رہے تھے مگر یوں لگتا تھا کہ وہ یقینا تھوڑے بہت لاپرواہ ہو گئے ہوں گے۔ کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ انھیں ٹھوکر لگی اور وہ گھاس پر گر گئے۔ پہیل تو انھوں نے لمبی لمبی گھاس میں اپنا منہ چھپا لیا مگر پھر نوجوان لڑکی نے اپنے ساتھی کو دیکھنے کے خیال سے اپنا چہرہ اس طرف موڑا۔ اپنے محبوب کا چہرہ دیکھتے دیکھتے جو اس کی نگاہیں اٹھیں تو آسمان نظر آ گیا ”دیکھو آسمان نیلا ہے!“ اس نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔

نوجوان لڑکے کو کفر کے ان کلمات کے خوف سے نجات ملی تو اس نے خود آسمان کی طرف دیکھنے کی ہمت کی اور پھر اپنی اس دریافت کی خوشی میں دیوانہ وار اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اور شہر کی طرف بھاگنے لگا۔

”آسمان نیلا ہے!“

وہ بار بار چلا رہا تھا اور ہاتھ ہلا ہلا کر آسمان کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔

”خود دیکھ لو کہ آسمان نیلا ہے یا نہیں!“

مگر وہ جس طرف سے گزرتا لوگ اس کی بات سن کر زمین پر اور بھی زیادہ جھک جاتے اور اس خو ف سے کہ اب آسمان سے بجلی گرنے ہی والی ہے پناہیں ڈھونڈنے لگتے۔

نوجوان بازار کے درمیان میں کھڑا ہوا تھا اور آسمان کو دیکھے جا رہا تھا کہ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا اور اسے قیدی بنا کر لے گئے۔ پھر اسے اس کے کفر بکنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا سنا دی گئی۔ اسے بیڑیاں پہنا کر معبد کی دیوار تک لے جایا گیا اور بندوقچیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ تیار ہو جائیں۔

بدقسمت نوجوان کے چہرے پر بکھری ہوئی مسکراہٹ سے گمراہ ہو کر ایک سپاہی اپنی خواہش پر قابو نہ رکھ سکا کہ وہ خود کم از کم ایک نظر آسمان کی طرف دیکھ کر معلوم کرے کہ کیا واقعی نوجوان غلط کہہ رہا ہے۔ اپنی بندوق کو آزمانے کا بہانہ بنا کر اس نے چوری چوری آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے ساتھ کھڑے ہوئے سپاہی کو کہنی ماری۔

”نوجوان سچ کہہ رہا ہے۔ آسمان نیلا ہے“

”آسمان سچ مچ نیلا ہے“ دوسرے سپاہی نے تیسرے کے کان میں کہا۔

”نشانہ لو۔“ افسر دھاڑا۔

”نیلا ۔۔۔ اور ہمیں کچھ بھی نہیں ہو گا“

”ہمیں کچھ بھی نہیں ہو سکتا“

”گولی چلاﺅ۔“ افسر نے کڑک دار آواز میں حکم دیا۔ مگر سپاہی جو آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے گولی چلانا بھول گئے۔

جب باغی سپاہیوں کو سزا دینے کے لیے آسمان سے کوئی پیلی روشنی کی تلوار نہیں گری تو تماشائیوں میں سے کچھ نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھائیں اور ذرا سی دیر میں بازار میں موجود لوگ سیدھے کھڑے ہو کر دنیا کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے لگے۔ وہ طلسم ٹوٹ چکا تھا۔

سو تذکرے ہمیں بتاتے ہیں کہ اس بازار میں ایک نوجوان جوڑے کا مجسمہ جن کی مضطرب نگاہیں آسمان کو تک رہی تھیں، صدیوں تک نصب رہا۔

اسٹیفن لیکز

ترجمہ : سید کاظم رضا

مولانا فضل الرحمان اور اچکزئی

انور سعید داوڑ

مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی میں  قدر مشترک :       انور سعید داوڑ ************************************************مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی فاٹا ایشو پر ایک ہی پیج پر دیکھائ دے رہے ہیں ۔  دونوں میں قدر مشترک یہ ہے  ۔  کہ دونوں ایک آڑ کے پیچھے  چپ کر سیاست کر رہے ہیں ۔ ایک اسلام کی  آڑ لے کر سیاست کر رہا ہے ۔ اور دوسرا پشتون قوم پرستی  کی آڑ لے کر سیاست میں مصروف عمل ہے۔ دونوں نے ان اعلیٰ وارفع مقاصد کو فایدے کے بجائے نقصان پہنچایا ہیں ۔  مولانا صاحب عرصہ دراز سے اپنے  چھ سات  نشستیں لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ جاتے ہے ۔ حکومت وقت سے بارگین کرکے حصہ بقدر جثہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہے ۔ اور یوں حضرت کی سیاست کامیابی سے رواں دواں رہتا ہے  ۔  اس پورے عمل  میں اسلام کا کیا بول بالا ہوا ?  یہ سوال قارئین کی خدمت میں تشنہ جواب رکھنا چاہتا ہوں ۔  ذرا غور فرمائے پورے پاکستان سے جمعیت العلما  اسلام کو جو مینڈیٹ ملا ۔ اس مینڈیٹ کا ارتکاز جناب اکرم درانی وفاقی وزیر برائے ہاوسنگ اینڈ ورکس پر ہوا ۔ جمعیت کی عوامی رائے ایک وزارت کیلئے استعمال تو ہوا ، مگر مولانا اپنے ووٹرزکے سامنے   وضاحت کرنا پسند فرماییں گے ۔ کہ اکرم درانی کی وزارت سے اسلام کو کتنا فائدہ ہوا ۔ ہاں  اگر فائدہ ہوا تو درانی صاحب اور مولانا برادران کو ہوا ۔  مولانا اور درانی نےخو ب ترقی کے منازل طے کرکے  آگے  بڑھیں ہیں  مگر اسلام نے کوئی ترقی نہیں کی ۔ اسلام کا مقدس نام استعمال ہوا ۔ جو بنفسہ دین کیلئے نقصان  کا باعث ہے ۔۔                                        یہی قصہ جناب اچکزئی صاحب کا بھی ہے  ۔ محمود اچکزئی اور اس کے والد مرحوم صمد خان اچکزئی  نے پوری عمر پشتون قوم پرستی کے نام پر سیاست کی ۔ خارجی اور داخلی سامراج  پر لعن طعن کی ۔   ریاست پاکستان کی تشنیع کی ۔ موقع ملا تو آج ریاست و وفاق پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر بساط پر نمودار ہوا ۔ اپنے بھائی کو گورنر بنایا ۔ اور درجنوں عزیز اقربا کو بڑے بڑے عہدوں پر متمکن کرایا ۔ اچکزئی صاحب اپنے ووٹرز کے سامنے وضاحت فرمائں  گے کہ پشتون کے نام پر لیے گیے ووٹوں سے پشتونوں کو کتنا فائدہ ہوا ۔  جب پشتونوں کی حقوق کی بات چلی ، ان  کو حقوق دینے کا وقت آیا  ۔ تو موصوف  اس کی مخالفت پر اتر آیا ۔ اتحاد کے  بجائے انتشار کی بات کرنے لگے ہیں  ۔  باپ بیٹا  پشتونوں کو تقسیم کرنے والی لکھیروں کو نہیں مانتے تھے  ۔ لر او بر یو پشتون  ، کی بات کرتے تھے ۔ اب جب وقت آیاتو اس میں روڑے اٹھکا رہے ہیں  ۔ فاٹا انضمام کے بجائے فاٹا انتشار کی بات کررہے ہیں ۔  پشتون پرستی کے آ ڑ کے پیچھے چپ کر پشتون کاز کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔              اچکزئی صاحب اور مولانا صاحب نے  عجیب وغریب منطق اپنایا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ہم ایف سی  آر  کے خلاف ہیں  ۔ مگر فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کیلئے قبائلیوں کی رائے ضروری ہے ۔  میں عرض کرتا چلو ں کہ صرف ایف سی آر خت ختم  کرنے کا فائدہ نہیں نقصان ہے ۔ فاٹا کی موجودہ سیاسی حیثیت کو ختم کرنا بھی ضروری ہے  رہی بات ریفرنڈم کی ۔ کیا مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب نہیں جانتے کہ پاکستان میں رفرنڈم کی  کیا تاریخ ہے۔  عوامی رائے کی  جانچ کے نام پر  ہر ریفرنڈم متنازعہ رہا ہے ۔ قبائلی رائے عامہ تو بارہ ممبران کی صورت میں موجودہے  پھر بھی ،  معلوم حقیقت پر ریفرنڈم پر ضد کرنا مسئلے کو الجھانے کے  سوا کچھ نہیں ۔  میں نہ مانوں  کا کیا علاج ہے  ۔ مجھے چاند چاہئے کی کیا دوا ہے ۔   جاتے جاتے میں اپنے دوستوں کے سامنے سوال چھوڑ کے جاتا ہوں ۔ کیا وہ اپنے جو آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے ہیں ، اچھے ہیں یا وہ غیر جو آپ کے راستے سے کانٹے صاف کرتے ہیں ?ج

Friday, December 23, 2016

اضمام یا علیحدہ صوبہ قبائل نیوز

انور سعید سے
فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام پر وارد سوالات کے مفصل جوابات:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زیرنظر پوسٹ میں فاٹا کے پختونخواہ میں ادغام پر مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور تحفظات کا تفصیل سے جوابات دینے کی سعی کی جائے گی۔ تا کہ جملہ متعلققین کے لئے فیصلہ کرنے میں سہولت رہے۔ کو شش کی جائے گی کہ سطحی معلومات سے صرف نظر کرکے زمینی حقائق کو قارئین کے سامنے رکھوں۔
1: فاٹا ، بطور علیحدہ صوبہ:
فاٹا صوبہ کے قیام میں بہت سارے موانع موجود ہیں جن کے باعث الگ صوبہ ممکن نہیں۔ فاٹا کی جغرافیائی ساخت ، نامناسب مواصلاتی نظام ، انتظامی اور مالیاتی انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی ایسے عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے الگ صوبہ بنانا تقریباً ناممکن ہے ۔ اگر صوبہ بنایا بھی گیا تو اس کو اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس صورت میں ہمہ وقت وفاق اور دوسرے صوبوں کے لئے درد سر بنا رہے گا ۔ متذکرہ صدر انفرااسٹرکچر کے قیام میں ایک صدی اور بیت جائے گی ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جو ں دوا کی ۔ گزشتہ بیس سالوں سے ایک میڈیکل کالج کے قیام پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ فاٹا سکرٹریٹ فاٹا کی بجائے پشاور میں موجود ہے آخر ایسا کیوں ہے ۔ ناممکنات کےپیچھے بھا گنے کی بجائے عملئت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
2: انضمام کی صورت میں وسائل سے محرومی:
 بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا  کہ انضمام کی صورت میں ہم اپنے معدنی وسائل اور متوقع راہداریوں کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ قطعی بے بنیاد اختراع ہے ۔ بلکہ اس کے برعکس ہمارے پاس اضافی وسائل میسر آجائیں گے۔ مثلاً کے پی کے کو بجلی کی رائلٹی کے مد میں ملنی والی رقم میں ہم بھی حصہ دار ہونگے ۔ آٹھارویں آئینی ترمیم کے صوبوں کو بے پناہ وسائل میسر ہیں ۔ ہم بھی استفادہ کر سکیں گے ۔ فاٹا کے متوقع محاصل سے کے پی کے کے وسائل کہی زیادہ ہیں ۔ تاہم علاقائی وسائل پر پہلا حق ان علاقوں کا ہے ۔ جہاں یہ وسائل دستیاب ہو ۔ مثلاً کرک سے پیدا ہونے والے گیس اور تیل پر ان کو مراعات دی جارہی ہیں ۔ یوں فاٹا کو ایڈجسٹ کرنے کے آئینی طریقہ کار بھی موجود ہیں ۔ یعنی ادغام کی صورت میں کم وسائل کے ساتھ ہم زیادہ حصہ لینے کے پوزیشن میں ہوںگے ۔ سو وسائل کی محرومی کی بات بالکل غلط ہے
3: کوٹہ اور دیگر مراعات سے محرومی:
 بعض لوگوں کا یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ کہ انضمام کی صورت میں ہم تعلیمی اور دوسرے اداروں میں کوٹہ سے محروم ہو جائیں گے ۔ اس ضمن میں تواتر سے لکھتا آ رہا ہوں ۔ اپنے دوستوں کو بتاتا چلوں ۔ کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی آئینی انتظام موجود ہیں ۔ صوبہ سندھ میں سندھ رورل اور سندھ اربن کیلئے الگ الگ کوٹہ مختص ہیں ۔ چنانچہ فاٹا کوٹہ کو سندھ رورل کی طرز پر تحفظ دیا جا سکتا ہے ۔ بلوچستان میں بھی اے ایریا اور بی ایریا موجود ہیں ۔ سو کوٹہ سے متعلق خدشات بھی درست نہیں۔
4: سینٹ اور قومی اسمبلی میں نشستوں میں کمی:
 بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ادغام کی صورت میں فاٹا کی نشستیں کم ہو جائے گی ۔ یہ قیاس بھی صحیح نہیں ہے ۔ آئین کی رو سے آبادی ک بنیاد پر نشستوں کا تعین کیا گیا ہے ۔ فاٹا کو نشستیں خیرات میں نہیں ملی ہیں ان کو با قاعدہ آئینی تحفظ حاصل ہے ۔ لیکن تاکید تعدد مقدار پر ہونا چاہئے ۔ ہماری نمائندگی پہلے سے زیادہ موثر ہو گی ۔ مقامی سطح پر ہمیں صوبائی اسمبلی کی صورت میں موثر پلیٹ فارم میسر آ جائے گی ۔
(تحریر: Anwar Saeed Dawar)

ہمارے مسائل (سپایہ لوئر اوکزئ ایجنسی)

#ہمارے_مسائل
مچھر کی بات ہاتھی کے کان میں  :-
                اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خطہ اورکزئ میں ایک ایسی قوم بھی ہے جہاں دوسرے اقوام سے اگر موازنہ کی جائیے تو اورکزئ کے کونے کونے کی گلیوں اور کوچوں تک پکی اینٹوں سے سال میں دو بار سنگھارا  جاتا ہے اور صاف اور شفاف پانیوں تک کی رسائ اور ٹیوب ویلز ہر گھر اور مکین تک پہنچائیں گئی ہے ۔۔انسانوں کے لئیے ہسپتال بمع ڈاکٹرز اور مال مویشیوں کے ویٹر نیز  اورکزئ کے ہر گاوں اور کوچے کی زینت بنی ہوئ ہے ۔۔۔
          وہاں ایک قوم سیپایہ کے نام سے گٹاٹوپ اندھیروں میں نظروں سے اجھل بھی وجود رکھتا ہے لیکن افسوس کے وہاں موجود لوگوں کی وجود کا پتہ صرف الیکشن کے ادوار میں لگایا جا سکتا ہے ۔۔July 1992 میں کچہ پکہ میٹھا خان ٹو پلوسی روڈ جسکی لمبائ 17 KM ہے کچہ مکمل کی گئ جو مین سیپایہ تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے پچیس سال گزرنے کے باوجود تا حال صرف کچہ ہی نہی بلکہ اگر اپ اگر بار اسپر سفر کرو تو ایک مہینے اپ کو اپنے جوڑ ہڈیوں پرزوں کا علاج کرنا پڑھے گا ۔۔پچیس سالوں میں جتنے بھی منتخب ایم این ایز گزرے ہیں سب نے وعدوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیا ۔۔۔اور انشاءاللہ اگلے الیکشن سے قوم سیپایہ کا متفقہ طور پر بائیکاٹ رہے گا ۔۔
جب تک سیپایہ میں معیاری ہسپتال گرلز ہائ سکول مال مویشی ہسپتال اور بنیادی سہولتوں کا ہنگامی بنیادو پر علان نہ کی جائیے ۔۔۔
اگر اپ متفق ہے تو شیر کا کا بٹن دبائیں ۔۔۔۔
            #ابو_اشھد  (حاجی شھادت حسین سفلی )